باب: دنیا کی بہار اور رونق اور اس کی ریجھ کرنے سے ڈرنا
)
Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: The warning regarding worldly pleasures, amusements and competing against each other)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6483.
حضرت عمرو بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، جو بنوعامر بن لؤی کے حلیف ہیں اور غزوہ بدر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ شریک تھے۔ انھوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوعبید بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بحرین میں جزیہ وصول کرنے کے لیے روانہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اہل بحرین سے صلح کرلی تھی اور ان پر حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امیر مقرر کیا تھا۔ حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بحرین سے مال لے کر آئے تو انصار نے ان کے آنے کی خبر سنی اور نماز فجر رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ادا کی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو انصار آپ کے سامنے آگئے۔ آپ انھیں دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا: ’’میرا خیال ہے کہ تم نے ابوعبیدہ کے آنے کی خبر سنی ہے اور تمھیں یہ بھی معلوم ہوا ہوگا کہ وہ کچھ لے کر آئے ہیں؟‘‘ انصار نے کہا: ہاں، اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے فرمایا: ’’تمھیں خوشخبری ہو اور تم اس کی امید رکھو جو تمھیں خوش کر دے گی، اللہ کی قسم! مجھے تمہارے فقروتنگدستی کا اندیشہ نہیں بلکہ میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر بھی اسی طرح کشادہ کر دی جائے گی جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کر دی گئی تھی اور تم بھی اس کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی اسی طرح کوشش کرو گے جس طرح وہ کرتے تھے اور وہ تمھیں بھی اسی طرح غافل کر دے گی جس طرح ان لوگوں کو غافل کیا تھا۔‘‘
تشریح:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کچھ اگلی قوموں اور امتوں کا تجربہ تھا کہ جب ان کے ہاں دنیا کی ریل پیل ہوئی تو ان میں دنیوی حرص اور دولت کی چاہت اور زیادہ بڑھ گئی، پھر وہ دنیا کے دیوانے اور متوالے ہو گئے اور اصل مقصد زندگی کو فراموش کر دیا، پھر اس وجہ سے ان میں باہمی حسد و بغض بھی پیدا ہوا، بالآخر دنیا پرستی نے انہیں تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کے متعلق بھی اس قسم کا اندیشہ تھا، اس لیے آپ نے اس خطرے سے آگاہ کیا اور فرمایا: '’’مجھے تم پر فقر و ناداری کے حملے کا اتنا ڈر نہیں بلکہ اس کے برعکس دنیا پرستی میں مبتلا ہو کر تمہارے ہلاک ہونے کا مجھے زیادہ خوف اور ڈر ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مدعا اس خوش نما فتنے کی خطرناکی سے امت کو آگاہ کرنا ہے۔ بعد میں آنے والے حالات سے یہ واضح ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی اور مسلمان دنیاوی محبت میں پھنس کر اسلام اور فکر آخرت سے غافل ہو گئے جس کے نتیجے میں بے دینی اور انحطاط نے دنیائے اسلام کو گھیر رکھا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بجا طور پر فرمایا ہے: ’’اگر ابن آدم کے پاس خزانوں سے بھری ہوئی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری وادی کی تلاش میں نکل کھڑا ہو گا۔ ابن آدم کا پیٹ کو صرف قبر کی مٹی ہی بھرے گی، اللہ تعالیٰ تو اپنی مہربانی اس پر کرتا ہے جو اپنا رخ اس کی طرف کر لیتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6436)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6196
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6425
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6425
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6425
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت عمرو بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، جو بنوعامر بن لؤی کے حلیف ہیں اور غزوہ بدر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ شریک تھے۔ انھوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوعبید بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بحرین میں جزیہ وصول کرنے کے لیے روانہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اہل بحرین سے صلح کرلی تھی اور ان پر حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امیر مقرر کیا تھا۔ حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بحرین سے مال لے کر آئے تو انصار نے ان کے آنے کی خبر سنی اور نماز فجر رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ادا کی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو انصار آپ کے سامنے آگئے۔ آپ انھیں دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا: ’’میرا خیال ہے کہ تم نے ابوعبیدہ کے آنے کی خبر سنی ہے اور تمھیں یہ بھی معلوم ہوا ہوگا کہ وہ کچھ لے کر آئے ہیں؟‘‘ انصار نے کہا: ہاں، اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے فرمایا: ’’تمھیں خوشخبری ہو اور تم اس کی امید رکھو جو تمھیں خوش کر دے گی، اللہ کی قسم! مجھے تمہارے فقروتنگدستی کا اندیشہ نہیں بلکہ میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر بھی اسی طرح کشادہ کر دی جائے گی جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کر دی گئی تھی اور تم بھی اس کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی اسی طرح کوشش کرو گے جس طرح وہ کرتے تھے اور وہ تمھیں بھی اسی طرح غافل کر دے گی جس طرح ان لوگوں کو غافل کیا تھا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کچھ اگلی قوموں اور امتوں کا تجربہ تھا کہ جب ان کے ہاں دنیا کی ریل پیل ہوئی تو ان میں دنیوی حرص اور دولت کی چاہت اور زیادہ بڑھ گئی، پھر وہ دنیا کے دیوانے اور متوالے ہو گئے اور اصل مقصد زندگی کو فراموش کر دیا، پھر اس وجہ سے ان میں باہمی حسد و بغض بھی پیدا ہوا، بالآخر دنیا پرستی نے انہیں تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کے متعلق بھی اس قسم کا اندیشہ تھا، اس لیے آپ نے اس خطرے سے آگاہ کیا اور فرمایا: '’’مجھے تم پر فقر و ناداری کے حملے کا اتنا ڈر نہیں بلکہ اس کے برعکس دنیا پرستی میں مبتلا ہو کر تمہارے ہلاک ہونے کا مجھے زیادہ خوف اور ڈر ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مدعا اس خوش نما فتنے کی خطرناکی سے امت کو آگاہ کرنا ہے۔ بعد میں آنے والے حالات سے یہ واضح ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی اور مسلمان دنیاوی محبت میں پھنس کر اسلام اور فکر آخرت سے غافل ہو گئے جس کے نتیجے میں بے دینی اور انحطاط نے دنیائے اسلام کو گھیر رکھا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بجا طور پر فرمایا ہے: ’’اگر ابن آدم کے پاس خزانوں سے بھری ہوئی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری وادی کی تلاش میں نکل کھڑا ہو گا۔ ابن آدم کا پیٹ کو صرف قبر کی مٹی ہی بھرے گی، اللہ تعالیٰ تو اپنی مہربانی اس پر کرتا ہے جو اپنا رخ اس کی طرف کر لیتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6436)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن عبد اللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے اسماعیل بن ابراہیم بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے کہا کہ ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھ سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا اور انہیں مسور بن مخرمہ ؓ نے خبر دی کہ عمروبن عوف ؓ جو بنی عامر بن عدی کے حلیف تھے اور بدر کی لڑائی میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، انہوں نے انہیں خبر دی کہ آنحضرت ﷺ نے ابو عبیدہ بن الجراح ؓ کو بحرین وہاں کا جزیہ لانے کے لئے بھیجا، آنحضرت ﷺ نے بحرین والوں سے صلح کر لی تھی اور ان پر علاء بن الحضرمی کو امیر مقرر کیا تھا۔ جب ابو عبیدہ ؓ بحرین سے جزیہ کا مال لے کر آئے تو انصار نے ان کے آنے کے متعلق سنا اور صبح کی نماز آنحضرت ﷺ کے ساتھ پڑھی اور جب آنحضرت ﷺ انہیں دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا میرا خیال ہے کہ ابو عبیدہ کے آنے کے متعلق تم نے سن لیا ہے اور یہ بھی کہ وہ کچھ لے کر آئے ہیں؟ انصار نے عرض کیا جی ہاں، یا رسول اللہ! آنحضرت ﷺ نے فرمایا، پھر تمہیں خوشخبری ہو تم اس کی امید رکھو جو تمہیں خوش کر دے گی، خدا کی قسم، فقر ومحتاجی وہ چیز نہیں ہے جس سے میں تمہارے متعلق ڈرتا ہوں بلکہ میں تو اس سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر بھی اسی طرح کشادہ کر دی جائے گی، جس طرح ان لوگوں پر کر دی گئی تھی جو تم سے پہلے تھے اور تم بھی اس کے لئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی اسی طرح کوشش کرو گے جس طرح وہ کرتے تھے اور تمہیں بھی اسی طرح غافل کر دے گی جس طرح ان کو غافل کیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ہو بہو یہی ہوا بعد کے زمانوں میں مسلمان محبت دنیاوی میں پھنس کر اسلام اور فکر آخرت سے غافل ہوگئے جس کے نتیجہ میں بے دینی پیدا ہوگئی اور وہ آپس میں لڑنے لگے جس کا نتیجہ یہ انحطاط ہے جس نے آج دنیائے اسلام کو گھیر رکھا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Amr bin 'Auf (RA) : (an ally of the tribe of Bani 'Amir bin Lu'ai and one of those who had witnessed the battle of Badr with Allah's Apostle) (ﷺ) Allah's Apostle (ﷺ) sent Abu 'Ubaida bin AlJarrah to Bahrain to collect the Jizya tax. Allah's Apostle (ﷺ) had concluded a peace treaty with the people of Bahrain and appointed Al 'Ala bin Al-Hadrami as their chief; Abu Ubaida arrived from Bahrain with the money. The Ansar heard of Abu 'Ubaida's arrival which coincided with the Fajr (morning) prayer led by Allah's Apostle. When the Prophet (ﷺ) finished the prayer, they came to him. Allah's Apostle (ﷺ) smiled when he saw them and said, "I think you have heard of the arrival of Abu 'Ubaida and that he has brought something." They replied, "Yes, O Allah's Apostle (ﷺ) ! " He said, "Have the good news, and hope for what will please you. By Allah, I am not afraid that you will become poor, but I am afraid that worldly wealth will be given to you in abundance as it was given to those (nations) before you, and you will start competing each other for it as the previous nations competed for it, and then it will divert you (from good) as it diverted them." '