تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان بشارت دینے والے کے بجائے ڈرانے والے کا زیادہ محتاج ہے کیونکہ خوشخبری کی طرف مائل ہونا انسان کی فطرت میں داخل ہے لیکن ہلاکت سے بچانے کے لیے اس کی رہنمائی ضروری ہے۔
(2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کی بہت فکر تھی اور آپ اس کے لیے بہت شفیق اور مہربان تھے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’تمہارے پاس ایسا رسول آیا ہے جو تمہاری قوم کا ہے۔ اس پر تمہاری مصیبت بہت گراں گزرتی ہے۔ تمہارے متعلق بہت حریص اور خاص طور اہل ایمان پر بہت ہی شفقت کرنے والا اور مہربان ہے۔‘‘ (التوبة: 128/9) لیکن افراد امت کی حالت یہ ہے کہ وہ زبردستی جہنم میں گھسنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ (فتح الباري: 386/11)