تشریح:
(1) اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص شہوات نفسانی کا پرستار ہو اس نے گویا دوزخ کا حجاب اٹھا دیا اور وہ جہنم میں پہنچ جاتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے: ’’جس نے سرکشی کی اور دنیاوی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی، تو یقیناً اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔‘‘ (النازعات: 37-38) اس کے برعکس جو مکروہات اور مشکلات برداشت کر کے دین اسلام پر عمل کرتا ہے تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا مہمان ہو گا اور اسے جنت میں اعزاز کے ساتھ داخل کیا جائے گا۔ اللهم اجعلنا من أهلها
(2) اس حدیث کی وضاحت ایک دوسری حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے جب جنت کو پیدا کیا تو حضرت جبریل علیہ السلام سے کہا: جاؤ اور اسے دیکھ کر آؤ، چنانچہ وہ گئے، اسے دیکھا پھر واپس آئے تو کہا: اے میرے رب! تیری عزت کی قسم! اس کے متعلق جو کوئی بھی سنے گا، اس میں داخل ہونا چاہے گا، پھر اللہ تعالیٰ نے اسے مکروہات کے گھیرے میں دے دیا، پھر فرمایا: اے جبریل! اب جاؤ اور اسے دیکھ کر آؤ، چنانچہ وہ گئے اور اسے دیکھ کر واپس آئے، پھر عرض کی: اے میرے رب! مجھے تیری عزت کی قسم! مجھے خطرہ ہے کہ اس میں کوئی بھی داخل نہیں ہو سکے گا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے دوزخ کو پیدا کیا تو حضرت جبریل علیہ السلام سے کہا: جاؤ اور دوزخ کو دیکھ کر آؤ۔ وہ گئے اور اسے دیکھ کر واپس آئے تو عرض کی: اے میرے رب! تیری عزت کی قسم! کوئی نہیں جو اس کے متعلق سنے اور پھر اس میں داخل ہو، پھر اللہ تعالیٰ نے اسے نفسانی خواہشات کے گھیرے میں دے دیا، اس کے بعد جبرئیل علیہ السلام سے فرمایا: جاؤ اسے دیکھ کر آؤ۔ وہ گئے اور اسے دیکھ کر واپس آئے تو عرض کی: اے میرے رب! تیری عزت کی قسم! تیرے جلال کی قسم! مجھے خطرہ ہے کہ اس میں داخل ہونے سے کوئی بھی نہیں بچ سکے گا۔‘‘ (سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4744)