تشریح:
انسان کی یہ ایک فطری کمزوری ہے کہ جب وہ کسی ایسے شخص کو دیکھتا ہے جو مال و دولت یا شکل و صورت میں اس سے بڑھ کر ہو تو اس میں طمع اور حرص پیدا ہوتی ہے اور اسے خیال آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس طرح کا کیوں نہیں بنایا۔ اس حدیث میں اس روحانی بیماری کا علاج تجویز کیا گیا ہے کہ اپنے سے غریب و مفلس اور کم زور بندوں کو دیکھ لے۔ ایسا کرنے سے اس کی بیماری کا علاج ہو جائے گا۔ اس کی مزید وضاحت درج ذیل حدیث میں ہے: ’’جس شخص میں دو خصلتیں ہوں گی اللہ تعالیٰ اسے اپنے ہاں صابر و شاکر لکھے گا: جس شخص کی عادت ہو کہ وہ دین کے معاملے میں تو ان بندوں پر نظر رکھے جو دین میں اس سے بڑھ کر ہوں اور ان کی پیروی اختیار کرے اور دنیا کے معاملے میں اپنے سے خستہ حال کو دیکھے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے برتری دی ہے تو اللہ کے ہاں صابر و شاکر لکھا جائے گا۔ اور جو آدمی دینی معاملات میں اپنے سے ادنیٰ لوگوں کو دیکھے اور دنیا کے متعلق اپنے سے ادنیٰ لوگوں کو دیکھے اور دنیا کے متعلق اپنے سے بالاتر اور اونچے کو دیکھے اور جو دنیاوی نعمتیں اسے نہیں ملیں ان پر افسوس اور رنج کا اظہار کرے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ صابر و شاکر نہیں لکھا جائے گا۔‘‘ (جامع الترمذي، صفة القیامة، حدیث: 2512)