باب: دنیا کی بہار اور رونق اور اس کی ریجھ کرنے سے ڈرنا
)
Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: The warning regarding worldly pleasures, amusements and competing against each other)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6490.
حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم نے نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ہجرت کی تھی۔۔۔ اس کے بعد اپنا واقعہ بیان کیا۔
تشریح:
(1) ان احادیث میں حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کے واقعات کو ایک خاص تسلسل سے بیان کیا گیا ہے کہ پہلے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے اپنا گھر بار چھوڑا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ہجرت کی۔ ہجرت کرنے والوں میں کچھ ایسے حضرات بھی تھے جنہوں نے دنیا سے کچھ حاصل نہ کیا۔ ان میں سے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ بھی تھے جنہیں وفات کے بعد پورا کفن بھی نصیب نہ ہوا۔ ایسے لوگ فتوحات کے نتیجے میں حاصل ہونے والا آرام نہ پا سکے بلکہ انہوں نے اپنی ساری نیکیاں آخرت کے لیے ہی جمع کر لیں۔ کچھ لوگوں نے فتوحات کا زمانہ پایا۔ انہوں نے اس کے نتیجے میں دنیا آرام اور مال و متاع حاصل کیا اور بڑے بڑے مکانات تعمیر کیے۔ انہیں اس قدر دولت ملی کہ پانی مٹی کے علاوہ انہیں اپنی دولت کا کوئی مصرف نظر نہیں آتا۔ (2) گرمی، سردی اور بارش وغیرہ سے محفوظ رہنے کے لیے اگرچہ مکان ضروری ہے لیکن بے جا عمارتیں کھڑی کرنا، محض فخر و مباہات اور نمودونمائش کے لیے کئی کئی منزلہ پلازے تعمیر کرنا اسلامی مزاج کے خلاف ہے، اسے کسی صورت میں اچھا کام نہیں کہا جا سکتا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا ان احادیث سے یہی مقصود ہے کہ انسان کا بڑی بڑی عمارتوں پر اپنی دولت صرف کرنا دنیا کی زیب و زینت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ اسلام کا مزاج قطعاً اس کی اجازت نہیں دیتا۔ واللہ المستعان
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6203
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6432
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6432
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6432
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم نے نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ہجرت کی تھی۔۔۔ اس کے بعد اپنا واقعہ بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ان احادیث میں حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کے واقعات کو ایک خاص تسلسل سے بیان کیا گیا ہے کہ پہلے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے اپنا گھر بار چھوڑا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ہجرت کی۔ ہجرت کرنے والوں میں کچھ ایسے حضرات بھی تھے جنہوں نے دنیا سے کچھ حاصل نہ کیا۔ ان میں سے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ بھی تھے جنہیں وفات کے بعد پورا کفن بھی نصیب نہ ہوا۔ ایسے لوگ فتوحات کے نتیجے میں حاصل ہونے والا آرام نہ پا سکے بلکہ انہوں نے اپنی ساری نیکیاں آخرت کے لیے ہی جمع کر لیں۔ کچھ لوگوں نے فتوحات کا زمانہ پایا۔ انہوں نے اس کے نتیجے میں دنیا آرام اور مال و متاع حاصل کیا اور بڑے بڑے مکانات تعمیر کیے۔ انہیں اس قدر دولت ملی کہ پانی مٹی کے علاوہ انہیں اپنی دولت کا کوئی مصرف نظر نہیں آتا۔ (2) گرمی، سردی اور بارش وغیرہ سے محفوظ رہنے کے لیے اگرچہ مکان ضروری ہے لیکن بے جا عمارتیں کھڑی کرنا، محض فخر و مباہات اور نمودونمائش کے لیے کئی کئی منزلہ پلازے تعمیر کرنا اسلامی مزاج کے خلاف ہے، اسے کسی صورت میں اچھا کام نہیں کہا جا سکتا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا ان احادیث سے یہی مقصود ہے کہ انسان کا بڑی بڑی عمارتوں پر اپنی دولت صرف کرنا دنیا کی زیب و زینت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ اسلام کا مزاج قطعاً اس کی اجازت نہیں دیتا۔ واللہ المستعان
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے، ان سے اعمش نے ان سے ابو وائل نے اور ان سے خباب بن ارت ؓ نے بیان کیا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہجرت کی تھی اور اس کا قصہ بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Khabbab (RA) : We migrated with the Prophet..(This narration is related in the chapter of migration).