تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو بار بار آواز دی تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی اہم بات بیان کرنے والے ہیں اور اسے سننے کے لیے مکمل طور پر متوجہ ہو جائیں، غفلت نہ کریں۔
(2) اللہ تعالیٰ کی عبادت کے علاوہ اپنے نفس کو ہر قسم کے شغل سے روکے رکھنا نفس کا مجاہدہ ہے۔ چونکہ حدیث میں عبادت کا استحقاق بیان ہوا ہے، اس بنا پر عنوان اور حدیث میں مطابقت واضح ہے۔ نفس کی عام طور پر دو حالتیں ہیں: ایک تو شہوات میں منہمک ہونا اور دوسری اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے گریز کرنا۔ نفس سے مجاہدہ ان دونوں حالات کے پیش نظر ہوتا ہے۔
(3) نفس کے تین دشمن ہیں، ان کا سردار ابلیس لعین ہے، دوسرا انسان کا نفس اور تیسرا غلط قسم کے لوگ۔ نفس کا مددگار شیطان ہوتا ہے، اس لیے نفس سے جہاد بہت مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا ثواب بھی بہت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’جو انسان اپنے رب کے حضور پیش ہونے سے ڈر گیا اور اپنے نفس کو خواہشات سے لگام دی تو اس کا ٹھکانا جنت ہے۔‘‘ (النازعات: 40)
(4) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ نفس سے جہاد کے چار مراتب ہیں: ٭ اسے امور دین سیکھنے کے لیے آمادہ کرنا اور اس پر لگانا۔ ٭ دینی معاملات کے مطابق عمل کرنے اور اس پر ہمیشگی کرنے پر آمادہ کرنا۔ ٭ اسے اس بات پر آمادہ کرنا کہ جن لوگوں کو علم نہیں ہے انہیں تعلیم دے۔ ٭ توحید کی طرف بلانے اور دین کی مخالفت کرنے والوں سے قتال کرنے پر آمادہ کرنا۔ (فتح الباري: 410/11) واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذمے کوئی چیز واجب نہیں۔ حدیث میں ’’بندوں کا اللہ پر حق‘‘ کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں سے جزا و سزا کا جو وعدہ کیا ہے وہ اس کو پورا کرے گا۔ واللہ أعلم