باب: آدمی جو اللہ کی راہ میں دے دے وہی اس کا اصلی مال ہے
)
Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: Whatever one spends from his money will be better for him)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6500.
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کون ہے جسے اپنے مال کے بجائے اپنے وارث کا مال زیادہ محبوب ہو؟‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ ! ہم میں سے ہر ایک کو اپنا ہی مال محبوب ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’پھر اس کا مال تو وہی ہے جو اس نے آگے بھیج دیا اور اس کے وارث کا مال وہ ہے جو وہ (اپنے) پیچھے چھوڑ کر چلا گیا۔‘‘
تشریح:
درحقیقت انسان کا مال تو وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں دے کر آخرت کے خزانے میں جمع کر دیا، اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ درحقیقت اس کا نہیں بلکہ اس کے وارثوں کا ہے جن کے لیے وہ اسے چھوڑ کر جانے والا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں اس کی مزید وضاحت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بندہ رٹ لگاتا ہے کہ میرا مال، میری دولت، حالانکہ اس کا مال تو صرف تین چیزیں ہیں: ایک وہ جو اس نے کھا کر ختم کر دیا، دوسرا وہ جو اس نے پہن کر پرانا کر ڈالا اور تیسرا وہ جو اس نے اللہ کی راہ میں دے کر آخرت کے خزانے میں جمع کر دیا، اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ دوسروں کے لیے چھوڑ جانے والا ہے جبکہ وہ خود یہاں سے رخصت ہو جانے والا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الزھد، حدیث: 7422 (2959)) جب صورت حال یہ ہے تو انسان کو چاہیے کہ وہ آخرت ہی کو اپنا مقصود بنائے اور اسے سنوارنے کی فکر کرے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6213
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6442
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6442
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6442
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کون ہے جسے اپنے مال کے بجائے اپنے وارث کا مال زیادہ محبوب ہو؟‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ ! ہم میں سے ہر ایک کو اپنا ہی مال محبوب ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’پھر اس کا مال تو وہی ہے جو اس نے آگے بھیج دیا اور اس کے وارث کا مال وہ ہے جو وہ (اپنے) پیچھے چھوڑ کر چلا گیا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
درحقیقت انسان کا مال تو وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں دے کر آخرت کے خزانے میں جمع کر دیا، اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ درحقیقت اس کا نہیں بلکہ اس کے وارثوں کا ہے جن کے لیے وہ اسے چھوڑ کر جانے والا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں اس کی مزید وضاحت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بندہ رٹ لگاتا ہے کہ میرا مال، میری دولت، حالانکہ اس کا مال تو صرف تین چیزیں ہیں: ایک وہ جو اس نے کھا کر ختم کر دیا، دوسرا وہ جو اس نے پہن کر پرانا کر ڈالا اور تیسرا وہ جو اس نے اللہ کی راہ میں دے کر آخرت کے خزانے میں جمع کر دیا، اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ دوسروں کے لیے چھوڑ جانے والا ہے جبکہ وہ خود یہاں سے رخصت ہو جانے والا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الزھد، حدیث: 7422 (2959)) جب صورت حال یہ ہے تو انسان کو چاہیے کہ وہ آخرت ہی کو اپنا مقصود بنائے اور اسے سنوارنے کی فکر کرے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے عمر بن حفص نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابراہیم تیمی نے بیان کیا، ان سے حارث بن سوید نے کہ عبد اللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم میں کون ہے جسے اپنے مال سے زیادہ اپنے وارث کا مال پیارا ہو۔ صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ! ہم میں کوئی ایسا نہیں جسے مال زیادہ پیارا نہ ہو۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا، پھر اس کا مال وہ ہے جو اس نے (موت سے) پہلے (اللہ کے راستہ میں خرچ) کیا اور اس کے وارث کا مال وہ ہے جو وہ چھوڑ کر مرا۔
حدیث حاشیہ:
حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو اپنی زندگی میں آخرت کے لئے زیادہ سے زیادہ اثاثہ جمع کر سکیں اور اللہ کے راستہ سے مراد اسلام ہے جس کی اشاعت اور خدمت میں مال اور جان سے پر خلوص حصہ لینا مسلمان کی زندگی کا واحد نصب العین ہونا چاہئے۔ وفقنا اللہ لما یحب ویرضیٰ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "Who among you considers the wealth of his heirs dearer to him than his own wealth?" They replied, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! There is none among us but loves his own wealth more." The Prophet (ﷺ) said, "So his wealth is whatever he spends (in Allah's Cause) during his life (on good deeds) while the wealth of his heirs is whatever he leaves after his death."