صحیح بخاری
81. کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
14. باب: نبی کریم ﷺکا یہ ارشاد کہ اگر احد پہاڑ کے برابر سونا میرے پاس ہوتو بھی مجھ کو یہ پسند نہیں آخرحدیث تک
باب: نبی کریم ﷺکا یہ ارشاد کہ اگر احد پہاڑ کے برابر سونا میرے پاس ہوتو بھی مجھ کو یہ پسند نہیں آخرحدیث تک
)
Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: "It would not please me to have gold equal to this mountain of Uhud")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6503.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر سونا ہوتو مجھے یہ پسند ہے کہ تین راتیں بھی اس پر نہ گزرنے پائیں کہ اس میں سے میرے پاس کچھ باقی ہو، اگر کسی کا قرض دور کرنے کے لیے کچھ رکھ چھوڑوں تو الگ بات ہے۔“
تشریح:
(1) اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کے مال و متاع سے کوئی دلچسپی نہ تھی، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کھجور کی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ اس پر کوئی بستر وغیرہ بھی نہیں تھا اور اس چٹائی کے نشانات آپ کے پہلو پر نمایاں تھے اور آپ نے چمڑے کے تکیے پر ٹیک لگا رکھی تھی۔ میں آپ کی اس حالت کو دیکھ کر رو پڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے رونے کی وجہ پوچھی۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! اہل فارس اور اہل روم کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر کشادگی دی ہے اور آپ تو اس کے رسول ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا تم خوش نہیں کہ ان کے لیے دنیا میں ہوں اور ہمارے لیے آخرت میں۔‘‘ (صحیح البخاره، التفسیر، حدیث: 4913) ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ آپ کی امت پر کشادگی فرمائے کیونکہ اہل فارس اور اہل روم پر تو اس کی بہت سی نوازشات ہیں، حالانکہ وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے؟ آپ نے فرمایا: ’’اے ابن خطاب! کیا تم ابھی تک اسی مقام پر ہو؟ یہ کفار وہ لوگ ہیں کہ انہیں ان کی لذتیں اس دنیا کی زندگی میں جلد عطا کر دی گئی ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، المظالم، حدیث: 2468) (2) امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اُحد پہاڑ کے برابر سونا مل جائے تو اسے بھی اپنے پاس نہ رکھیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیں، صرف اتنی دولت باقی رکھیں جس سے قرض کی ادائیگی ہو سکے۔ واللہ المستعان
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6216
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6445
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6445
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6445
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر سونا ہوتو مجھے یہ پسند ہے کہ تین راتیں بھی اس پر نہ گزرنے پائیں کہ اس میں سے میرے پاس کچھ باقی ہو، اگر کسی کا قرض دور کرنے کے لیے کچھ رکھ چھوڑوں تو الگ بات ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کے مال و متاع سے کوئی دلچسپی نہ تھی، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کھجور کی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ اس پر کوئی بستر وغیرہ بھی نہیں تھا اور اس چٹائی کے نشانات آپ کے پہلو پر نمایاں تھے اور آپ نے چمڑے کے تکیے پر ٹیک لگا رکھی تھی۔ میں آپ کی اس حالت کو دیکھ کر رو پڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے رونے کی وجہ پوچھی۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! اہل فارس اور اہل روم کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر کشادگی دی ہے اور آپ تو اس کے رسول ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’کیا تم خوش نہیں کہ ان کے لیے دنیا میں ہوں اور ہمارے لیے آخرت میں۔‘‘ (صحیح البخاره، التفسیر، حدیث: 4913) ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ آپ کی امت پر کشادگی فرمائے کیونکہ اہل فارس اور اہل روم پر تو اس کی بہت سی نوازشات ہیں، حالانکہ وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے؟ آپ نے فرمایا: ’’اے ابن خطاب! کیا تم ابھی تک اسی مقام پر ہو؟ یہ کفار وہ لوگ ہیں کہ انہیں ان کی لذتیں اس دنیا کی زندگی میں جلد عطا کر دی گئی ہیں۔‘‘ (صحیح البخاري، المظالم، حدیث: 2468) (2) امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اُحد پہاڑ کے برابر سونا مل جائے تو اسے بھی اپنے پاس نہ رکھیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیں، صرف اتنی دولت باقی رکھیں جس سے قرض کی ادائیگی ہو سکے۔ واللہ المستعان
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے احمد بن شبیب نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے یونس نے اور لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب زہری نے، ان سے عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود نے کہ ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تو بھی مجھے اس میں خوشی ہوگی کہ تین دن بھی مجھ پر اس حال میں نہ گزرنے پائیں کہ اس میں سے میرے پاس کچھ بھی باقی بچے۔ البتہ اگر کسی کا قرض دورکرنے کے لئے کچھ رکھ چھوڑوں تو یہ اور بات ہے۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ ادائيگی قرض کے لئے سرمایہ جمع کرنا شرعاً معیوب نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : Allah Apostle (ﷺ) said, "If I had gold equal to the mountain of Uhud, it would not please me that anything of it should remain with me after three nights (i.e., I would spend all of it in Allah's Cause) except what I would keep for repaying debts."