تشریح:
(1) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’‘جب تین چیزوں کا ظہور ہو جائے گا تو اس وقت کسی کے لیے اس کا ایمان نفع نہیں دے گا جو اس سے پہلے ایمان نہیں لایا ہو گا یا جس نے ایمان کے بعد عمل خیر نہیں کمایا ہو گا، ان میں سے ایک سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دوسرا دجال کا آ جانا اور تیسرا دابۃ الارض کا برآمد ہو جانا۔‘‘ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 398 (158))
(2) مغرب کی جانب سے طلوع سورج کے بعد کافر کا ایمان اسے کوئی نفع نہیں دے گا کیونکہ اس وقت ایمان لانا جب قیامت کے آثار ظاہر ہونے لگیں موت کے وقت ایمان لانے کی طرح ہے اور غرغرہ کے وقت ایمان لانا مفید نہیں ہے جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’بندے کی توبہ اس وقت تک قبول ہے جب تک وہ غرغرہ میں مبتلا نہ ہو، جب یہ کیفیت شروع ہو جائے تو ایمان لانا کوئی فائدہ نہیں دے گا۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الزھد، حدیث: 4253) اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’جب انہوں نے اللہ کا عذاب دیکھ لیا تو ان کے ایمان لانے نے انہیں کچھ نفع نہ دیا۔‘‘ (المؤمن: 85)
(3) جب سورج مغرب سے طلوع ہو گا تو اسی وقت خروج دابہ ہو گا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کی حکمت یہ بیان کرتے ہیں کہ مغرب سے طلوع سورج کے وقت توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا تو دابہ کا ظہور ہو گا جو مومن کو کافر سے ممتاز کر دے گا تاکہ اس مقصد کی تکمیل ہو جائے جو توبہ کا دروازہ بند کر دینے سے مقصود ہے۔ (فتح الباري: 429/11)
(4) واضح رہے کہ غرغرہ سے مراد نزع کا وقت ہے جب قبض روح کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ جب موت کے فرشتے ظاہر ہو جاتے ہیں تو عالم آخرت سے تعلق قائم ہو جاتا ہے، اس لیے توبہ کی مہلت ختم ہو جاتی ہے۔