Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: The superiority of being poor)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6506.
حضرت ابو وائل سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم نے حضرت خباب بن ارت ؓ کی عیادت کی تو انہوں نے فرمایا: ہم نے نبی ﷺ کے ہمراہ اللہ تعالٰی کی رضا جوئی کے لیے ہجرت کی تو ہمارا اجر اللہ کے ذمے ثابت ہو گیا۔ ہم میں سے کچھ ساتھی اللہ کو پیارے ہوگئے اور انہوں نے اپنے اجر سے کچھ نہ لیا۔ ان میں حضرت مصعب بن عمیر ؓ جو غزوہ احد میں شہید ہوئے تھے۔ انہوں نے (ترکےمیں) صرف ایک چادر چھوڑی تھی، جب ہم بطور کفن ان کا سر ڈھانپتے تو ان کے پاؤں چھپاتے تو سر ننگا ہو جاتا، چنانچہ نبی ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ان کا سر ڈھانپ دیں اور پاؤں پر اذخر گھاس ڈال دیں۔ اور ہم میں سے کچھ وہ بھی ہیں جن کے پھل دنیا میں خوب پکے اور وہ مزے سے چن چن کر کھا رہے ہیں۔
تشریح:
(1) حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ پہلے پہلے مکہ سے مدینہ طیبہ ہجرت کر کے آئے اور مدینہ طیبہ میں لوگوں کو قرآن پڑھانے پر مقرر ہوئے۔ (صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث: 3925) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عقبہ اُولیٰ کے انصار کے ہمراہ ہی روانہ کر دیا تھا تاکہ وہ انہیں دین اسلام کی تعلیم دیں۔ (فتح الباري: 336/11) حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مسجد نبوی میں بیٹھے تھے کہ اچانک حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے پیوند لگی ہوئی دھاری دار اونی چادر زیب تن کر رکھی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی اس حالت کو دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی امیرانہ زندگی کو دیکھا تھا۔ (جامع الترمذي، صفة القیامة، حدیث: 2476) (2) ہجرت کے بعد حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے فتوحات کا زمانہ نہیں پایا، اسی فقیرانہ حالت میں شہید ہوئے۔ کچھ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ایسے بھی تھے کہ فتوحات کے باوجود انہوں نے اپنی حالت میں کوئی تبدیلی لانا گوارا نہیں کی جیسا کہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ تھے۔ اکثر حضرات نے فتوحات کا زمانہ پایا، انہیں مال و دولت ملا اور انہوں نے اپنی زندگی آرام اور سکون سے گزاری لیکن اس مال و دولت نے ان کا دماغ خراب نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنی دولت کو آخرت بنانے میں صرف کیا۔ (3) حدیث کے ظاہری الفاظ کا تقاضا ہے کہ جن لوگوں نے ہجرت کے بعد مال و دولت حاصل کیا ان کے اخروی ثواب سے کٹوتی ہو گی جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے۔ (فتح الباري: 336/11)واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6219
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6448
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6448
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6448
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
فقر و فاقے کی فضیلت اس بنا پر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس انداز سے انتخاب کیا تھا جیسا کہ گزشتہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی تھی: ''اے میرے پروردگار! میں تو فقیرانہ زندگی چاہتا ہوں کہ ایک دن کھانے کو ہو اور ایک دن کھانے کو نہ ہو۔'' درحقیقت آپ کا جو مقام اور منصب تھا اور جو کار عظیم آپ کے ذمے تھا اس کے لیے فقر و مسکنت کی زندگی ہی شایان شان تھی۔ اگر اللہ تعالیٰ قناعت و طمانیت اور رضا و تسلیم نصیب فرمائے تو بندوں کے لیے بھی بہ نسبت دولت مندی کے فقر و فاقے کی زندگی ہی افضل اور بہتر ہے۔
حضرت ابو وائل سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم نے حضرت خباب بن ارت ؓ کی عیادت کی تو انہوں نے فرمایا: ہم نے نبی ﷺ کے ہمراہ اللہ تعالٰی کی رضا جوئی کے لیے ہجرت کی تو ہمارا اجر اللہ کے ذمے ثابت ہو گیا۔ ہم میں سے کچھ ساتھی اللہ کو پیارے ہوگئے اور انہوں نے اپنے اجر سے کچھ نہ لیا۔ ان میں حضرت مصعب بن عمیر ؓ جو غزوہ احد میں شہید ہوئے تھے۔ انہوں نے (ترکےمیں) صرف ایک چادر چھوڑی تھی، جب ہم بطور کفن ان کا سر ڈھانپتے تو ان کے پاؤں چھپاتے تو سر ننگا ہو جاتا، چنانچہ نبی ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ان کا سر ڈھانپ دیں اور پاؤں پر اذخر گھاس ڈال دیں۔ اور ہم میں سے کچھ وہ بھی ہیں جن کے پھل دنیا میں خوب پکے اور وہ مزے سے چن چن کر کھا رہے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ پہلے پہلے مکہ سے مدینہ طیبہ ہجرت کر کے آئے اور مدینہ طیبہ میں لوگوں کو قرآن پڑھانے پر مقرر ہوئے۔ (صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث: 3925) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عقبہ اُولیٰ کے انصار کے ہمراہ ہی روانہ کر دیا تھا تاکہ وہ انہیں دین اسلام کی تعلیم دیں۔ (فتح الباري: 336/11) حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مسجد نبوی میں بیٹھے تھے کہ اچانک حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے پیوند لگی ہوئی دھاری دار اونی چادر زیب تن کر رکھی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی اس حالت کو دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی امیرانہ زندگی کو دیکھا تھا۔ (جامع الترمذي، صفة القیامة، حدیث: 2476) (2) ہجرت کے بعد حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے فتوحات کا زمانہ نہیں پایا، اسی فقیرانہ حالت میں شہید ہوئے۔ کچھ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ایسے بھی تھے کہ فتوحات کے باوجود انہوں نے اپنی حالت میں کوئی تبدیلی لانا گوارا نہیں کی جیسا کہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ تھے۔ اکثر حضرات نے فتوحات کا زمانہ پایا، انہیں مال و دولت ملا اور انہوں نے اپنی زندگی آرام اور سکون سے گزاری لیکن اس مال و دولت نے ان کا دماغ خراب نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنی دولت کو آخرت بنانے میں صرف کیا۔ (3) حدیث کے ظاہری الفاظ کا تقاضا ہے کہ جن لوگوں نے ہجرت کے بعد مال و دولت حاصل کیا ان کے اخروی ثواب سے کٹوتی ہو گی جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے۔ (فتح الباري: 336/11)واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے، کہا کہ میں نے ابووائل سے سنا، کہا کہ ہم نے خباب بن ارت ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ہجرت کی۔ چنانچہ ہمارا اجر اللہ کے ذمہ رہا۔ پس ہم میں سے کوئی تو گزر گیا اور اپنا اجر (اس دنیا میں) نہیں لیا۔ حضرت مصعب بن عمیر ؓ (انہی) میں سے تھے، وہ جنگ احد کے موقع پر شہید ہو گئے تھے اور ایک چادر چھوڑی تھی (اس چادرکا ان کو کفن دیا گیا تھا) اس چادر سے ہم اگر ان کا سر ڈھکتے تو ان کے پاؤں کھل جاتے اور پاؤں ڈھکتے تو سر کھل جاتا۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم ان کا سرڈھک دیں اور پاؤں پر اذخیر گھاس ڈال دیں اور کوئی ہم میں سے ایسے ہوئے جن کے پھل خوب پکے اور وہ مزے سے چن چن کر کھا رہے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
یعنی ان کو دنیا کی فتوحات ہوئیں، خوب مال ودولت ملا اور وہ اپنی زندگی آرام سے گزار رہے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Wail (RA) : We paid a visit to Khabbab who was sick, and he said, "We migrated with the Prophet (ﷺ) for Allah's Sake and our wages became due on Allah. Some of us died without having received anything of the wages, and one of them was Mus'ab bin 'Umar, who was martyred on the day of the battle of Uhud, leaving only one sheet (to shroud him in). If we covered his head with it, his feet became uncovered, and if we covered his feet with it, his head became uncovered. So the Prophet (ﷺ) ordered us to cover his head with it and put some Idhkhir (a kind of grass) over his feet. On the other hand, some of us have had the fruits (of our good deed) and are plucking them (in this world)."