باب: نبی کریم ﷺاور آپ ﷺ کے صحابہ کے گزران کا بیان اور دنیا کے مزوں سے ان کا علیحدہ رہنا
)
Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: How the Prophet (saws) and his Companions used to live)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6518.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے دعا کی: ”اے اللہ! آل محمد کو صرف اتنی روزی دے کہ وہ زندہ رہ سکیں۔“
تشریح:
(1) ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز زندگی اور انداز معیشت بہت سادہ تھا،غذا بھی معمولی تھی جس سے جسم اور روح کا رشتہ قائم رہ سکے، عموماً پانی اور کھجوروں پر گزارا ہوتا، البتہ بعض اوقات کوئی تھوڑا سا گوشت بھیج دیتا تو وہ گھر میں پکا لیا جاتا ورنہ دو، ماہ تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں دھواں نظر نہیں آتا تھا۔ بعض اوقات آپ کے ہمسائے جن کے پاس دودھ دینے والے جانور ہوتے تھے وہ دودھ بھیج دیتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ اپنے اہل خانہ کو پلا دیتے تھے، کبھی بھنی ہوئی بکری آپ کے سامنے نہ دیکھی گئی، بہرحال کھانے کی چیزیں فراوانی کے ساتھ میسر نہ تھیں۔ (2) ہمارے گھروں میں کئی کئی نرم گرم بستر ہیں لیکن لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بستر تھا جس کے اندر کھجور کی چھال بھری ہوئی تھیں جبکہ مدنی زندگی میں آپ کے ذرائع معاش حسب ذیل تھے: ٭مال غنیمت: جہاد فی سبیل اللہ کا ایک ثمرہ مال غنیمت بھی ہے۔ پہلی امتوں کے لیے مال غنیمت حلال نہ تھا اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص عنایت سے اس امت کے لیے مال غنیمت کو حلال قرار دیا۔ مال غنیمت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پانچواں حصہ ملتا جو بیت المال کا حصہ ہوتا، تاہم اس سے آپ کی ضروریات بھی پوری کی جاتی تھیں۔ بنونضیر کے باغات، خیبر کی زمین اور باغ فدک اسی مد سے تھا۔ خیبر کی پیداوار تین حصوں میں تقسیم تھی: دو حصے عام مسلمانوں کے لیے اور ایک حصہ آپ کے اہل وعیال پر خرچ ہوتا تھا۔ ٭ مال فَے: جو مال دشمن سے لڑائی کے بغیر حاصل ہوتا اسے مال فَے کہا جاتا۔ یہ مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص ہوتا تھا۔ اس میں آپ کو اختیار تھا کہ جسے چاہیں دیں اور جسے چاہیں نہ دیں۔ باغ فَدَک جو بنونضیر کی جلاوطنی کے وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا تھا اور وہ بطور مال فَے آپ ہی کے پاس تھا، آپ اس میں کچھ حصہ اپنے اہل وعیال پر خرچ کرتے اور کچھ غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔ ٭بیت المال میں سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ مقرر تھا۔ آپ نے خیبر کی زمین نصف پیداوار پر مزارعت کے لیے دے رکھی تھی، اس کی پیداوار سے گزراوقات ہوتا، کھجوریں فراوانی سے تھیں۔ جب خیبر فتح ہوا تو تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم کے لیے اَسّی وسق کھجور اور بیس وسق جَو سالانہ مقرر ہوئے۔ ٭غیر ملکی بادشاہوں کے تحائف کے علاوہ اہل مدینہ کے غیر مسلم لوگوں کی طرف ہدایا کے ساتھ غیر ملکی حکمرانوں کے تحائف بھی شامل ہیں۔ ٭ایک یہودی کا بیش بہا تحفہ: مخیریق قبیلۂ بنو قینقاع کا ایم امیر ترین یہودی تھا۔ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی عقیدت تھی۔ اس کے سات باغ تھے۔ وہ آپ کی معیت میں غزوۂ احد میں شریک تھا۔ اس نے غزوۂ اُحد میں شرکت کے وقت وصیت کی تھی کہ اگر وہ فوت ہو جائے تو اس کے تمام باغات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت ہوں گے۔ وہ اس غزوے میں قتل ہو گیا تو اس کے تمام باغات بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت میں آگئے۔ (طبقات الکبریٰ: 501/5) (3) رسول اللہ نے دولت کی فراوانی کے باوجود اپنے لیے سادگی اور قناعت کو پسند فرمایا اور عجزو انکسار کو اوڑھنا بچھونا اور ہر طرح کے ناجائز ذرائع آمدنی سے اپنے دامن کو محفوظ رکھا۔ ہمارے رجحان کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی درویشانہ زندگی اضطراری نہیں بلکہ اختیاری تھی۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا بھی مانگی تھی: ’’اے اللہ! ہمیں کھانا اتنا میسر ہو جس سے صرف زندگی باقی رہے۔‘‘ اور آپ دوسروں پر ایثار اور ہمدردی کو ترجیح دیتے تھے۔ اس کی صرف ایک مثال پیش خدمت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مال غنیمت کے طور پر بہت سے غلام، لونڈیاں آئے۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس گئیں تاکہ گھر کی خدمت گزاری کے لیے کوئی نوکرانی لائیں۔ آپ نے فرمایا: ’’بیٹی! اہل صفہ کی فاقہ کشی مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔ وہ اکثر بھوکے رہتے ہیں۔ میں ان غلاموں کو بیچ کر ان کے کھانے کا بندوبست کرنا چاہتا ہوں، پھر آپ نے انہیں وظیفہ بتایا جو تسبیح فاطمہ کے نام سے مشہور ہے۔ (مسند أحمد: 106/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6231
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6460
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6460
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6460
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی اس قدر سادہ اور درویشانہ تھی کہ موجودہ رہن سہن کو دیکھ کر اس سادہ زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ آج تو ہر شخص دنیاوی عیش و آرام میں غرق نظر آتا ہے۔ درج ذیل احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جاں نثار صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی گزر اوقات اور اندازِ زندگی کی معمولی سی جھلک پیش کی گئی ہے۔ چونکہ ان کے سامنے ''لا عيش إلا عيش الآخرة'' (صحیح البخاری، الصلاۃ، حدیث: 442) کا تصور تھا، اس لیے دنیاوی ٹھاٹھ باٹھ سے وہ کوسوں دور تھے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اصحاب صفہ کے متعلق ان الفاظ میں اظہار خیال کرتے تھے: میں نے ستر کے قریب اصحاب صفہ کو دیکھا، ان میں سے کسی ایک پر بھی بڑی چادر نہ تھی۔ ان پر تہ بند ہوتا یا ایک چادر ہوتی۔ انہوں نے اس کے کنارے گردنوں سے باندھ رکھے ہوتے تھے۔ ان میں سے کچھ کی چادریں نصف پنڈلی تک اور کچھ کی ٹخنوں تک پہنچی تھیں اور وہ اسے اپنے ہاتھ سے اکٹھا کرتا تاکہ اس کا ستر نہ کھل جائے۔ (صحیح البخاری، المغازی، حدیث: 4243) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے فتح خیبر سے پہلے کبھی بھی پیٹ بھر کر نہیں کھایا تھا۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے دعا کی: ”اے اللہ! آل محمد کو صرف اتنی روزی دے کہ وہ زندہ رہ سکیں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز زندگی اور انداز معیشت بہت سادہ تھا،غذا بھی معمولی تھی جس سے جسم اور روح کا رشتہ قائم رہ سکے، عموماً پانی اور کھجوروں پر گزارا ہوتا، البتہ بعض اوقات کوئی تھوڑا سا گوشت بھیج دیتا تو وہ گھر میں پکا لیا جاتا ورنہ دو، ماہ تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں دھواں نظر نہیں آتا تھا۔ بعض اوقات آپ کے ہمسائے جن کے پاس دودھ دینے والے جانور ہوتے تھے وہ دودھ بھیج دیتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ اپنے اہل خانہ کو پلا دیتے تھے، کبھی بھنی ہوئی بکری آپ کے سامنے نہ دیکھی گئی، بہرحال کھانے کی چیزیں فراوانی کے ساتھ میسر نہ تھیں۔ (2) ہمارے گھروں میں کئی کئی نرم گرم بستر ہیں لیکن لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بستر تھا جس کے اندر کھجور کی چھال بھری ہوئی تھیں جبکہ مدنی زندگی میں آپ کے ذرائع معاش حسب ذیل تھے: ٭مال غنیمت: جہاد فی سبیل اللہ کا ایک ثمرہ مال غنیمت بھی ہے۔ پہلی امتوں کے لیے مال غنیمت حلال نہ تھا اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص عنایت سے اس امت کے لیے مال غنیمت کو حلال قرار دیا۔ مال غنیمت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پانچواں حصہ ملتا جو بیت المال کا حصہ ہوتا، تاہم اس سے آپ کی ضروریات بھی پوری کی جاتی تھیں۔ بنونضیر کے باغات، خیبر کی زمین اور باغ فدک اسی مد سے تھا۔ خیبر کی پیداوار تین حصوں میں تقسیم تھی: دو حصے عام مسلمانوں کے لیے اور ایک حصہ آپ کے اہل وعیال پر خرچ ہوتا تھا۔ ٭ مال فَے: جو مال دشمن سے لڑائی کے بغیر حاصل ہوتا اسے مال فَے کہا جاتا۔ یہ مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص ہوتا تھا۔ اس میں آپ کو اختیار تھا کہ جسے چاہیں دیں اور جسے چاہیں نہ دیں۔ باغ فَدَک جو بنونضیر کی جلاوطنی کے وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا تھا اور وہ بطور مال فَے آپ ہی کے پاس تھا، آپ اس میں کچھ حصہ اپنے اہل وعیال پر خرچ کرتے اور کچھ غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔ ٭بیت المال میں سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ مقرر تھا۔ آپ نے خیبر کی زمین نصف پیداوار پر مزارعت کے لیے دے رکھی تھی، اس کی پیداوار سے گزراوقات ہوتا، کھجوریں فراوانی سے تھیں۔ جب خیبر فتح ہوا تو تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم کے لیے اَسّی وسق کھجور اور بیس وسق جَو سالانہ مقرر ہوئے۔ ٭غیر ملکی بادشاہوں کے تحائف کے علاوہ اہل مدینہ کے غیر مسلم لوگوں کی طرف ہدایا کے ساتھ غیر ملکی حکمرانوں کے تحائف بھی شامل ہیں۔ ٭ایک یہودی کا بیش بہا تحفہ: مخیریق قبیلۂ بنو قینقاع کا ایم امیر ترین یہودی تھا۔ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی عقیدت تھی۔ اس کے سات باغ تھے۔ وہ آپ کی معیت میں غزوۂ احد میں شریک تھا۔ اس نے غزوۂ اُحد میں شرکت کے وقت وصیت کی تھی کہ اگر وہ فوت ہو جائے تو اس کے تمام باغات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت ہوں گے۔ وہ اس غزوے میں قتل ہو گیا تو اس کے تمام باغات بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت میں آگئے۔ (طبقات الکبریٰ: 501/5) (3) رسول اللہ نے دولت کی فراوانی کے باوجود اپنے لیے سادگی اور قناعت کو پسند فرمایا اور عجزو انکسار کو اوڑھنا بچھونا اور ہر طرح کے ناجائز ذرائع آمدنی سے اپنے دامن کو محفوظ رکھا۔ ہمارے رجحان کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی درویشانہ زندگی اضطراری نہیں بلکہ اختیاری تھی۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا بھی مانگی تھی: ’’اے اللہ! ہمیں کھانا اتنا میسر ہو جس سے صرف زندگی باقی رہے۔‘‘ اور آپ دوسروں پر ایثار اور ہمدردی کو ترجیح دیتے تھے۔ اس کی صرف ایک مثال پیش خدمت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مال غنیمت کے طور پر بہت سے غلام، لونڈیاں آئے۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس گئیں تاکہ گھر کی خدمت گزاری کے لیے کوئی نوکرانی لائیں۔ آپ نے فرمایا: ’’بیٹی! اہل صفہ کی فاقہ کشی مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔ وہ اکثر بھوکے رہتے ہیں۔ میں ان غلاموں کو بیچ کر ان کے کھانے کا بندوبست کرنا چاہتا ہوں، پھر آپ نے انہیں وظیفہ بتایا جو تسبیح فاطمہ کے نام سے مشہور ہے۔ (مسند أحمد: 106/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن فضیل نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ا ن سے عمارہ نے، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے حضرت ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے دعا کی۔ ”اے اللہ! آل محمد کو اتنی روزی دے کہ وہ زندہ رہ سکیں۔“
حدیث حاشیہ:
جملہ احادیث مذکورہ کا مقصد یہی ہے کہ مسلمان اگر دنیا میں زیادہ عیش وآرام کی زندگی نہ گزار سکیں تو بھی ان کو شکر گزار بندہ بن کر رہنا چاہئے اور یقین رکھنا چاہئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ان کے لئے بہترین نمونہ ہے۔ ہاں حلال طرائق سے طلب رزق سراپا محمود ہے اور اس طورپر جو دولت حاصل ہو وہ بھی عین فضل الٰہی ہے۔ اصحاب نبوی میں حضرت عثمان غنی اور حضرت عبد الرحمن بن عوف جیسے مالدار حضرات بھی موجو د تھے۔ رضي اللہ عنهم أجمعین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, "O Allah! Give food to the family of Muhammad."