تشریح:
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق جس استثنیٰ کا ذکر کیا ہے وہ درج ذیل آیت کریمہ میں ہے: ’’اور جب صور پھونکا جائے گا تو جو بھی آسمانوں اور زمین میں موجود مخلوق ہے سب بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے مگر جسے اللہ (بچانا) چاہے، پھر جب دوسری بار صور پھونکا جائے گا تو فوراً سب کے سب اٹھ کر دیکھنے لگیں گے۔‘‘ (الزمر: 68) اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد بھی ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس میں صور پھونکے جانے کی طرف واضح اشارہ ہے۔
(2) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ ایسی مخلوق بھی ہو گی جو پہلے نفخے کے بعد بے ہوش نہیں ہو گی۔ بہرحال انسانوں میں سے کوئی بھی اس بے ہوشی سے محفوظ نہیں رہے گا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے ہوش ہوں گے تو دوسرے انسان کیسے بچ سکتے ہیں، البتہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آپ نے مستثنیٰ کیا ہے۔ وہ بھی اس صورت میں کہ شاید وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آ گئے ہوں یا بے ہوش ہوئے ہی نہ ہوں، اس لیے کہ وہ دنیا میں کوہ طور پر ایک بار بے ہوش ہو چکے تھے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روایت کے مطابق فرمایا: ‘‘مجھے معلوم نہیں کہ کوہ طور پر انہیں بے ہوش کر کے ان کا حساب چکا دیا گیا تھا یا وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آ گئے ہوں۔‘‘ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3414)
(3) رسول اللہ نے یہودی کو اسلام کی طرف مائل کرنے کے لیے یہ گفتگو بطور تواضع فرمائی تھی ورنہ احادیثِ شفاعت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیائے کرام علیہم السلام سے افضل ہیں۔ واللہ أعلم