تشریح:
(1) اس سے پہلی حدیث میں اہل جنت کی نسبت اہل جہنم کے مقابلے میں ایک فیصد تھی جبکہ اس حدیث میں ایک ہزار میں سے ایک بیان ہوئی ہے، اس تعارض کے محدثین نے کئی ایک جواب دیے ہیں: ٭ ایک عدد دوسرے عدد کے منافی نہیں بلکہ مقصد اہل ایمان کی قلت اور اہل کفر کی کثرت بیان کرنا ہے۔ ٭ تمام اولاد آدم کی نسبت ہزار میں سے ایک اور یاجوج ماجوج کے علاوہ نسبت سو میں سے ایک ہو گی۔ ٭ تمام مخلوق کے اعتبار سے ہزار میں سے ایک اور اس امت کے لحاظ سے سو میں سے ایک ہو گا۔ ٭ کفار کے اعتبار سے بہ نسبت ہزار میں سے ایک اور گناہ گاروں کے لحاظ سے ایک فی صد ہو گی۔ (فتح الباري: 474/11)
(2) بہرحال قیامت کے اس ہولناک منظر کو دیکھ کر بچے، بوڑھے ہو جائیں گے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اب اگر تم نے انکار کر دیا تو اس دن کی سختی سے کیسے بچو گے جو بچوں کو بوڑھا بنا دے گی جس کی سختی سے آسمان پھٹ جائے گا اور اللہ کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔‘‘ (المزمل:73//17، 18)