Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: To give up sinful deeds)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6541.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: میری مثال اور لوگوں کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ روشن کی۔ جب اس کے چاروں طرف روشنی پھیل گئی تو پروانے اور کیڑے مکوڑے جو آگ سے دور کرتا ہے لیکن وہ اس کے قابو میں نہیں آتے بلکہ آگ میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح میں تمہاری کمروں کو پکڑ کر آگ سے دور رکھتا ہوں اور تم ہو کہ اس میں گرتے جا رہے ہو۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان بشارت دینے والے کے بجائے ڈرانے والے کا زیادہ محتاج ہے کیونکہ خوشخبری کی طرف مائل ہونا انسان کی فطرت میں داخل ہے لیکن ہلاکت سے بچانے کے لیے اس کی رہنمائی ضروری ہے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کی بہت فکر تھی اور آپ اس کے لیے بہت شفیق اور مہربان تھے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’تمہارے پاس ایسا رسول آیا ہے جو تمہاری قوم کا ہے۔ اس پر تمہاری مصیبت بہت گراں گزرتی ہے۔ تمہارے متعلق بہت حریص اور خاص طور اہل ایمان پر بہت ہی شفقت کرنے والا اور مہربان ہے۔‘‘(التوبة: 128/9) لیکن افراد امت کی حالت یہ ہے کہ وہ زبردستی جہنم میں گھسنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ (فتح الباري: 386/11)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6254
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6483
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6483
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6483
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: میری مثال اور لوگوں کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ روشن کی۔ جب اس کے چاروں طرف روشنی پھیل گئی تو پروانے اور کیڑے مکوڑے جو آگ سے دور کرتا ہے لیکن وہ اس کے قابو میں نہیں آتے بلکہ آگ میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح میں تمہاری کمروں کو پکڑ کر آگ سے دور رکھتا ہوں اور تم ہو کہ اس میں گرتے جا رہے ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان بشارت دینے والے کے بجائے ڈرانے والے کا زیادہ محتاج ہے کیونکہ خوشخبری کی طرف مائل ہونا انسان کی فطرت میں داخل ہے لیکن ہلاکت سے بچانے کے لیے اس کی رہنمائی ضروری ہے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کی بہت فکر تھی اور آپ اس کے لیے بہت شفیق اور مہربان تھے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’تمہارے پاس ایسا رسول آیا ہے جو تمہاری قوم کا ہے۔ اس پر تمہاری مصیبت بہت گراں گزرتی ہے۔ تمہارے متعلق بہت حریص اور خاص طور اہل ایمان پر بہت ہی شفقت کرنے والا اور مہربان ہے۔‘‘(التوبة: 128/9) لیکن افراد امت کی حالت یہ ہے کہ وہ زبردستی جہنم میں گھسنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ (فتح الباري: 386/11)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم سے ابو الزناد نے بیان کیا، ان سے عبد الرحمن نے بیان کیا، انہوں نے ابو ہریرہ ؓ سے سنا اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میری اور لوگوں کی مثال ایک ایسے شخص کی ہے جس نے آگ جلائی، جب اس کے چاروں طرف روشنی ہو گئی تو پروانے اور یہ کیڑے مکوڑے جو آگ پر گرتے ہیں اس میں گرنے لگے اور آگ جلانے والا انہیں اس میں سے نکالنے لگا لیکن وہ اس کے قابو میں نہیں آئے اور آگ میں گرتے رہے۔ اسی طرح میں تمہاری کمر کو پکڑ کر آگ سے تمہیں نکالتا ہوں اور تم ہو کہ اسی میں گر تے جاتے ہو۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : I heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, "My example and the example of the people is that of a man who made a fire, and when it lighted what was around it, Moths and other insects started falling into the fire. The man tried (his best) to prevent them, (from falling in the fire) but they overpowered him and rushed into the fire. The Prophet (ﷺ) added: Now, similarly, I take hold of the knots at your waist (belts) to prevent you from falling into the Fire, but you insist on falling into it."