باب: جس نے کسی نیکی یا بدی کا ارادہ کیا اس کا نتیجہ کیا ہے؟
)
Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: Whoever intended to do a good deed or a bad deed)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6549.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے اپنے رب عزوجل سے بیان کیا: آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالٰی نے نیکیاں اور برائیاں لکھیں، پھر انہیں صاف بیان کر دیا، لہذا جس نے نیکی کا ارادہ کیا، لیکن اس پر عمل نہ کر سکا تو اللہ تعالٰی اپنے پاس پوری نیکی لکھ دیتا ہے اور اگر اس نے نیکی کا ارادہ کیا اور اس کے مطابق عمل بھی کیا تو اللہ تعالٰی اس کے لیے اپنے پاس دس نیکیوں سے لے کر سات سو گنا نیکیاں لکھ دیتا ہے، بلکہ اس سے بھی بڑھا کر لکھتا ہے۔ اور جس نے برائی کا ارادہ کیا، لیکن اس پر عمل نہ کرسکا تو اللہ تعالٰی اپنے پاس پوری نیکی لکھ دیتا ہے۔ اور اگر اس نے برائی کے ارادے کے بعد اس پر عمل کر لیا تو اللہ تعالٰی اپنے ہاں اس کے لیے ایک برائی ہی لکھتا ہے۔‘‘
تشریح:
(1) یہ اللہ تعالیٰ کا بے انتہا فضل و کرم ہے کہ اگر انسان نیکی کا صرف ارادہ کر لے تو بھی کامل نیکی کا ثواب لکھا جاتا ہے اور اگر برائی کا ارادہ کرے لیکن اس پر عمل نہ کرے تو کچھ بھی نہیں لکھا جاتا اور اگر برائی کا ارادہ کرے اور اس کے مطابق عمل بھی کرے تو صرف ایک برائی لکھی جاتی ہے۔ اس کے برعکس اگر نیکی کا ارادہ کرے اور اس کے مطابق عمل بھی کر لے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے بدلے کئی نیکیوں کا اندراج ہوتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا یہ فضل و کرم نہ ہوتا تو کوئی بھی جنت میں نہ جا سکتا کیونکہ انسانوں کی نیکیوں کے مقابلے میں ان کے گناہ اور نافرمانیاں زیادہ ہیں۔ ٰ (2) واضح رہے کہ اگر کوئی برائی کا ارادہ کر لے لیکن اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس پر عمل سے باز رہے تو اس کی نیکی لکھی جاتی ہے کیونکہ برائی سے رک جانا بذات خود ایک نیکی ہے لیکن اگر کوئی اپنی مجبوری کی وجہ سے برائی پر عمل نہ کر سکے یا اسے کوشش کے باوجود اس پر عمل کرنے کا موقع نہ ملے تو اسے نیت کی خرابی کا ضرور بدلہ ملے گا جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اگر میرا بندہ برائی کا ارادہ کر کے میری خاطر اسے چھوڑ دیتا ہے تو اس کے لیے ایک نیکی لکھ دو۔‘‘ (صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7501) ایک روایت میں ہے: ’’جب بندہ برائی کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتے سے کہتا ہے: انتظار کرو، اگر اس کے مطابق عمل کرتا ہے تو ایک برائی اور اگر اسے چھوڑ دیتا ہے تو ایک نیکی لکھو کیونکہ اس نے میری وجہ سے اس برائی کو چھوڑا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 336 (129))
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6262
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6491
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6491
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6491
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے اپنے رب عزوجل سے بیان کیا: آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالٰی نے نیکیاں اور برائیاں لکھیں، پھر انہیں صاف بیان کر دیا، لہذا جس نے نیکی کا ارادہ کیا، لیکن اس پر عمل نہ کر سکا تو اللہ تعالٰی اپنے پاس پوری نیکی لکھ دیتا ہے اور اگر اس نے نیکی کا ارادہ کیا اور اس کے مطابق عمل بھی کیا تو اللہ تعالٰی اس کے لیے اپنے پاس دس نیکیوں سے لے کر سات سو گنا نیکیاں لکھ دیتا ہے، بلکہ اس سے بھی بڑھا کر لکھتا ہے۔ اور جس نے برائی کا ارادہ کیا، لیکن اس پر عمل نہ کرسکا تو اللہ تعالٰی اپنے پاس پوری نیکی لکھ دیتا ہے۔ اور اگر اس نے برائی کے ارادے کے بعد اس پر عمل کر لیا تو اللہ تعالٰی اپنے ہاں اس کے لیے ایک برائی ہی لکھتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) یہ اللہ تعالیٰ کا بے انتہا فضل و کرم ہے کہ اگر انسان نیکی کا صرف ارادہ کر لے تو بھی کامل نیکی کا ثواب لکھا جاتا ہے اور اگر برائی کا ارادہ کرے لیکن اس پر عمل نہ کرے تو کچھ بھی نہیں لکھا جاتا اور اگر برائی کا ارادہ کرے اور اس کے مطابق عمل بھی کرے تو صرف ایک برائی لکھی جاتی ہے۔ اس کے برعکس اگر نیکی کا ارادہ کرے اور اس کے مطابق عمل بھی کر لے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے بدلے کئی نیکیوں کا اندراج ہوتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا یہ فضل و کرم نہ ہوتا تو کوئی بھی جنت میں نہ جا سکتا کیونکہ انسانوں کی نیکیوں کے مقابلے میں ان کے گناہ اور نافرمانیاں زیادہ ہیں۔ ٰ (2) واضح رہے کہ اگر کوئی برائی کا ارادہ کر لے لیکن اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس پر عمل سے باز رہے تو اس کی نیکی لکھی جاتی ہے کیونکہ برائی سے رک جانا بذات خود ایک نیکی ہے لیکن اگر کوئی اپنی مجبوری کی وجہ سے برائی پر عمل نہ کر سکے یا اسے کوشش کے باوجود اس پر عمل کرنے کا موقع نہ ملے تو اسے نیت کی خرابی کا ضرور بدلہ ملے گا جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اگر میرا بندہ برائی کا ارادہ کر کے میری خاطر اسے چھوڑ دیتا ہے تو اس کے لیے ایک نیکی لکھ دو۔‘‘ (صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7501) ایک روایت میں ہے: ’’جب بندہ برائی کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتے سے کہتا ہے: انتظار کرو، اگر اس کے مطابق عمل کرتا ہے تو ایک برائی اور اگر اسے چھوڑ دیتا ہے تو ایک نیکی لکھو کیونکہ اس نے میری وجہ سے اس برائی کو چھوڑا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 336 (129))
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو معمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبد الوارث نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے جعد ابوعثمان نے بیان کیا، ان سے ابورجاء عطاردی نے بیان کیا اور ان سے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا کہ رسو ل اللہ ﷺ نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے نیکیاں اور برائیاں مقدر کر دی ہیں اور پھر انہیں صاف صاف بیان کر دیا ہے۔ پس جس نے کسی نیکی کا ارادہ کیا لیکن اس پر عمل نہ کر سکا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ایک مکمل نیکی کا بدلہ لکھا ہے اور اگر اس نے ارادہ کے بعد اس پر عمل بھی کر لیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے اپنے یہاں دس گنے سے سات سو گنے تک نیکیاں لکھی ہیں اوراس سے بڑھ کر اور جس نے کسی برائی کا ارادہ کیا اور پھر اس پر عمل نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے اپنے یہاں نیکی لکھی ہے اور اگر اس نے ارادہ کے بعد اس پر عمل بھی کر لیا تو اپنے یہاں اس کے لئے ایک برائی لکھی ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA) : The Prophet (ﷺ) narrating about his Lord I'm and said, "Allah ordered (the appointed angels over you) that the good and the bad deeds be written, and He then showed (the way) how (to write). If somebody intends to do a good deed and he does not do it, then Allah will write for him a full good deed (in his account with Him); and if he intends to do a good deed and actually did it, then Allah will write for him (in his account) with Him (its reward equal) from ten to seven hundred times to many more times: and if somebody intended to do a bad deed and he does not do it, then Allah will write a full good deed (in his account) with Him, and if he intended to do it (a bad deed) and actually did it, then Allah will write one bad deed (in his account) ."