Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: What minor sins should be warded off)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6550.
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ تم ایسے ایسے کام کرتے ہو جو تمہاری نظر میں بال سے بھی زیادہ باریک ہیں جبکہ ہم لوگ نبی ﷺ کے عہد مبارک میں انہیں ہلاک کر دینے والے شمار کرتے تھے۔ ابو عبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے فرمایا: حدیث میں الموبقات کا لفظ ہلاکت کے معنیٰ میں ہے۔
تشریح:
(1) گناہ چھوٹا ہو یا بڑا، بندۂ مومن کو چاہیے کہ اس سے اپنے دامن کو آلودہ نہ ہونے دے۔ چھوٹے اور بڑے گناہ میں بس یہ فرق ہے کہ ایک زیادہ زہریلا سانپ ہے اور دوسرا کم زہریلا ہے۔ جس طرح ہم کم زہریلے سانپ سے بھی بھاگتے ہیں، اسی طرح چھوٹے گناہوں سے بھی ہر حال میں بچنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ صغیرہ گناہ اگرچہ کبیرہ گناہ کے مقابلے میں صغیرہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے بھی ناراض ہی ہوتا ہے، نیز آخرت میں اس کی بھی باز پرس ہو گی، اس اعتبار سے کوئی بھی گناہ ہلکا نہیں ہے۔ (2) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عائشہ! خود کو ان گناہوں سے بچانے کی خاص کوشش کرو جنہیں عام طور پر حقیر اور معمولی خیال کیا جاتا ہے کیونکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی بھی باز پرس ہو گی۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الزھد، حدیث: 4243) اگرچہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو مخاطب فرمایا ہے لیکن در حقیقت یہ تنبیہ سب مردوں اور عورتوں کے لیے ہے۔ ذرا سوچیے! جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ کو احتیاط اور فکر کی ضرورت ہے تو ہمارے لیے اس میں غفلت اور کوتاہی کی کیا گنجائش ہے۔ واللہ المستعان (3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمولی گناہوں کی سنگینی کو ایک تمثیلی انداز میں بیان فرمایا ہے: ’’تم معمولی گناہوں سے بھی بچتے رہا کرو، ان گناہوں کی مثال اس قوم کی طرح ہے جس نے کسی وادی میں پڑاؤ کیا، ایک آدمی ایندھن کے لیے جنگل سے لکڑی اٹھا لایا، دوسرا بھی ایک لکڑی لے آیا حتی کہ اتنا ایندھن جمع ہو گیا جس سے ان کی روٹیاں پک سکتی تھیں۔ یقیناً معمولی گناہ بھی انسان کو ہلاکت کے گڑھے میں پھینک دیتے ہیں۔‘‘ (مسند أحمد: 331/5)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6263
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6492
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6492
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6492
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ تم ایسے ایسے کام کرتے ہو جو تمہاری نظر میں بال سے بھی زیادہ باریک ہیں جبکہ ہم لوگ نبی ﷺ کے عہد مبارک میں انہیں ہلاک کر دینے والے شمار کرتے تھے۔ ابو عبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے فرمایا: حدیث میں الموبقات کا لفظ ہلاکت کے معنیٰ میں ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) گناہ چھوٹا ہو یا بڑا، بندۂ مومن کو چاہیے کہ اس سے اپنے دامن کو آلودہ نہ ہونے دے۔ چھوٹے اور بڑے گناہ میں بس یہ فرق ہے کہ ایک زیادہ زہریلا سانپ ہے اور دوسرا کم زہریلا ہے۔ جس طرح ہم کم زہریلے سانپ سے بھی بھاگتے ہیں، اسی طرح چھوٹے گناہوں سے بھی ہر حال میں بچنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ صغیرہ گناہ اگرچہ کبیرہ گناہ کے مقابلے میں صغیرہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے بھی ناراض ہی ہوتا ہے، نیز آخرت میں اس کی بھی باز پرس ہو گی، اس اعتبار سے کوئی بھی گناہ ہلکا نہیں ہے۔ (2) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عائشہ! خود کو ان گناہوں سے بچانے کی خاص کوشش کرو جنہیں عام طور پر حقیر اور معمولی خیال کیا جاتا ہے کیونکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی بھی باز پرس ہو گی۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الزھد، حدیث: 4243) اگرچہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو مخاطب فرمایا ہے لیکن در حقیقت یہ تنبیہ سب مردوں اور عورتوں کے لیے ہے۔ ذرا سوچیے! جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ کو احتیاط اور فکر کی ضرورت ہے تو ہمارے لیے اس میں غفلت اور کوتاہی کی کیا گنجائش ہے۔ واللہ المستعان (3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمولی گناہوں کی سنگینی کو ایک تمثیلی انداز میں بیان فرمایا ہے: ’’تم معمولی گناہوں سے بھی بچتے رہا کرو، ان گناہوں کی مثال اس قوم کی طرح ہے جس نے کسی وادی میں پڑاؤ کیا، ایک آدمی ایندھن کے لیے جنگل سے لکڑی اٹھا لایا، دوسرا بھی ایک لکڑی لے آیا حتی کہ اتنا ایندھن جمع ہو گیا جس سے ان کی روٹیاں پک سکتی تھیں۔ یقیناً معمولی گناہ بھی انسان کو ہلاکت کے گڑھے میں پھینک دیتے ہیں۔‘‘ (مسند أحمد: 331/5)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو الولید نے بیان کیا، کہا ہم سے مہدی نے بیان کیا، ان سے غیلان نے، ان سے انس ؓ نے، انہوں نے کہا تم ایسے ایسے عمل کرتے ہو جو تمہاری نظر میں بال سے زیادہ باریک ہیں (تم اسے حقیر سمجھتے ہو، بڑا گناہ نہیں سمجھتے) اور ہم لوگ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ان کاموں کو ہلاک کر دینے والا سمجھتے تھے۔ امام بخاری نے کہا کہ حدیث میں جو لفظ موبقات ہے اس کا معنی ہلاک کرنے والے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ghailan (RA) : Anas said "You people do (bad) deeds (commit sins) which seem in your eyes as tiny (minute) than hair while we used to consider those (very deeds) during the life-time of the Prophet (ﷺ) as destructive sins."