Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: Chapter. Showing Off)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6557.
حضرت سلمہ بن کہیل سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے سیدبا جندب ؓ کو کہتے سنا کہ نبی ﷺ نے فرمایا:۔ اور (حضرت جندب ؓ کے بعد) میں نے کسی کو بھی یہ کہتے نہیں سنا کہ نبی ﷺ نے فرمایا۔ چنانچہ میں حضرت جندب ؓ کے قریب پہنچا تو میں نے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جو انسان شہرت کا طالب ہو اللہ تعالٰی اس کی بندگی سب کو سنا دے گا، اسی طرح جو کوئی لوگوں کو دکھانے کے لیے نیک کام کرے گا اللہ تعالٰی (قیامت کے دن) اس کی ریا کاری ظاہر کردے گا۔“
تشریح:
(1) حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جس نے کوئی اچھا کام اخلاص کے بغیر کیا اور لوگوں کو سنانے دکھانے کے لیے عبادت کی، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے یہ سزا دے گا کہ اس کے باطن کو تمام لوگوں کے سامنے کھول کر رکھ دے گا اور پھر اپنے ہاں اسے کوئی اجروثواب نہیں دے گا۔ قیامت کے دن جہنم کا افتتاح اسی قسم کے لوگوں سے کیا جائے گا جو ریاکار اور نمائشی ہوں گے۔ وہ اچھے کام محض نمودونمائش اور اپنی شہرت کے لیے کرنے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وبا سے محفوظ رکھے۔ (2) جہاں اظہار کے بغیر چارہ نہ ہو، جیسے: فرض نماز ادا کرنا یا کتب دینیہ کی نشرواشاعت وغیرہ ایسے کاموں میں اخلاص کے ساتھ اظہار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جو شخص پیشوا ہو اسے اپنے اعمال ظاہر کرنے چاہئیں تاکہ دوسرے لوگ اس کی پیروی کریں۔ بہرحال ایسے معاملات میں إنما الأعمالُ بالنياتِ کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6270
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6499
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6499
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6499
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
ریاکاری یہ ہے کہ انسان کوئی بھی اچھا کام اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو دکھانے کے لیے کرے جبکہ شہرت طلبی یہ ہے کہ انسان کوئی کام چھپ کر کرے، پھر اس کا چرچا لوگوں میں کرنے لگے۔ (فتح الباری: 11/408)
حضرت سلمہ بن کہیل سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے سیدبا جندب ؓ کو کہتے سنا کہ نبی ﷺ نے فرمایا:۔ اور (حضرت جندب ؓ کے بعد) میں نے کسی کو بھی یہ کہتے نہیں سنا کہ نبی ﷺ نے فرمایا۔ چنانچہ میں حضرت جندب ؓ کے قریب پہنچا تو میں نے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جو انسان شہرت کا طالب ہو اللہ تعالٰی اس کی بندگی سب کو سنا دے گا، اسی طرح جو کوئی لوگوں کو دکھانے کے لیے نیک کام کرے گا اللہ تعالٰی (قیامت کے دن) اس کی ریا کاری ظاہر کردے گا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جس نے کوئی اچھا کام اخلاص کے بغیر کیا اور لوگوں کو سنانے دکھانے کے لیے عبادت کی، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے یہ سزا دے گا کہ اس کے باطن کو تمام لوگوں کے سامنے کھول کر رکھ دے گا اور پھر اپنے ہاں اسے کوئی اجروثواب نہیں دے گا۔ قیامت کے دن جہنم کا افتتاح اسی قسم کے لوگوں سے کیا جائے گا جو ریاکار اور نمائشی ہوں گے۔ وہ اچھے کام محض نمودونمائش اور اپنی شہرت کے لیے کرنے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس وبا سے محفوظ رکھے۔ (2) جہاں اظہار کے بغیر چارہ نہ ہو، جیسے: فرض نماز ادا کرنا یا کتب دینیہ کی نشرواشاعت وغیرہ ایسے کاموں میں اخلاص کے ساتھ اظہار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جو شخص پیشوا ہو اسے اپنے اعمال ظاہر کرنے چاہئیں تاکہ دوسرے لوگ اس کی پیروی کریں۔ بہرحال ایسے معاملات میں إنما الأعمالُ بالنياتِ کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، کہا مجھ سے سلمہ بن کہیل نے بیان کیا۔ (دوسری سند) حضرت امام بخاری نے کہا کہ ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے سلمہ نے بیان کیا کہ میں نے حضرت جندب ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اور میں نے آپ کے سوا کسی کو یہ کہتے نہیں سنا کہ ”نبی کریم ﷺ نے فرمایا“ چنانچہ میں ان کے قریب پہنچا تو میں نے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا (کسی نیک کام کے نتیجہ میں) جو شہرت کا طالب ہو اللہ تعالیٰ اس کی بد نیتی قیامت کے دن سب کو سنا دے گا۔ اسی طرح جو کوئی لوگوں کو دکھانے کے لئے نیک کام کرے گا اللہ بھی قیامت کے دن اس کو سب لوگوں کو دکھلا دے گا۔
حدیث حاشیہ:
ریاکاری سے بچنے کے لئے نیک کام چھپا کر کرنا مگر جہاں اظہار کے بغیر چارہ نہ ہو جیسے فرض نماز جماعت سے ادا کرنا یا دین کی کتابیں تالیف اور شائع کرنا اسی طرح جو شخص دین کا پیشوا ہو اس کو بھی اپنا عمل ظاہر کرنا چاہئے تاکہ دوسرے لوگ اس کی پیروی کریں بہر حال حدیث إنما الأعمالُ بالنیاتِ کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ ریا کو شرک خفی کہا گیا ہے جس کی مذمت کے لئے یہ حدیث کافی وافی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jundub (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "He who lets the people hear of his good deeds intentionally, to win their praise, Allah will let the people know his real intention (on the Day of Resurrection), and he who does good things in public to show off and win the praise of the people, Allah will disclose his real intention (and humiliate him).