تشریح:
(1) ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ہم نے آپ کو کوثر عطا فرمایا۔‘‘ (الکوثر: 1/108) اس کوثر کے مختلف مفہوم اور مختلف پہلو ہیں: لفظ کوثر میں مبالغہ پایا جاتا ہے۔ اہل لغت نے اس کے معنی لکھے ہیں: خیر کثیر۔
(2) بہت سی احادیث سے ثابت ہے کہ کوثر بہشت میں ایک نہر کا نام ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کی گئی، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصۂ معراج میں بیان فرمایا: ’’میں ایک نہر پر پہنچا جس کے دونوں کناروں پر خول دار موتیوں کے قبے تھے۔ میں نے جبرئیل سے پوچھا: یہ نہر کیسی ہے؟ تو انہوں نے کہا: یہ کوثر ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کی ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4964، 4966) علاوہ ازیں کوثر سے مراد حوض کوثر بھی ہے جو آپ کو میدان محشر میں قیام کے دن عطا کیا جائے گا جس دن سب لوگ پیاس سے بے تاب اور نڈھال ہو رہے ہوں گے اور العطش العطش، یعنی پیاس پیاس پکار رہے ہوں گے۔
(3) اس خیر کثیر کا تعلق تو اخروی زندگی سے ہے۔ دنیا میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیر کثیر سے نوازا گیا۔ آپ کو نبوت دی گئی اور قرآن عظیم جیسی بہت بڑی نعمت عطا کی گئی جس نے ایک وحشی قوم کی 23 سال کے مختصر عرصے میں کایا پلٹ کر رکھ دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت چھوڑی جو تھوڑے سے عرصے ہی میں تمام دنیا پر چھا گئی۔ بہرحال یہ خیر کثیر ہی کا حصہ ہے کہ آپ نے اپنے مشن کو جیتے جی پوری طرح کامیاب ہوتے دیکھ لیا۔