باب: جس کے حساب میں کھود کرید کی گئی اس کو عذاب کیا جائے گا
)
Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: Anybody whose account is questioned will surely be punished)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6594.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جس کا حساب کے وقت مناقشہ ہوا تو اس کوضرور عذاب ہوگا۔“ سیدہ عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے کہا: کیا اللہ تعالٰی یہ نہیں فرماتا: ”عنقریب ان سے ہلکا حساب لیاجائے گا؟“ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس سے مراد تو صرف پیشی ہے۔“ مجھ سے عمرو بن علی نے بیان کیا ان سے یحییٰ نے، ان سے عثمان بن اسود نے انہوں نے کہا: میں نے ابن ابی ملکیہ سے سنا، انہوں نے کہا: میں نے سیدہ عائشہ ؓ سے سنا انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ سے ایسا ہی سنا۔ اس روایت کی متابعت ابن جریج محمد بن سلیم، ایوب اور صالح بن رستم نے کی، انہوں نے ابن ابی ملکیہ سے، انہوں نے سیدہ عائشہ ؓ سے انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6307
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6536
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6536
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6536
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
مناقشه، نقش سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں: پاؤں سے کانٹا نکالنا۔ اصطلاحی طور پر مناقشه یہ ہے کہ محاسبہ کرنے میں انتہا کو پہنچنا، یعنی بال کی کھال اتارنا حتی کہ بڑی اور چھوٹی ہر چیز کا مطالبہ کرتے وقت کسی قسم کی نرمی کا مظاہرہ نہ کرنا۔ (فتح الباری: 11/487)
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جس کا حساب کے وقت مناقشہ ہوا تو اس کوضرور عذاب ہوگا۔“ سیدہ عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے کہا: کیا اللہ تعالٰی یہ نہیں فرماتا: ”عنقریب ان سے ہلکا حساب لیاجائے گا؟“ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس سے مراد تو صرف پیشی ہے۔“ مجھ سے عمرو بن علی نے بیان کیا ان سے یحییٰ نے، ان سے عثمان بن اسود نے انہوں نے کہا: میں نے ابن ابی ملکیہ سے سنا، انہوں نے کہا: میں نے سیدہ عائشہ ؓ سے سنا انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ سے ایسا ہی سنا۔ اس روایت کی متابعت ابن جریج محمد بن سلیم، ایوب اور صالح بن رستم نے کی، انہوں نے ابن ابی ملکیہ سے، انہوں نے سیدہ عائشہ ؓ سے انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے عثمان بن اسود نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے، ان سے ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس کے حساب میں کھود کرید کی گئی اس کو ضرور عذاب ہوگا۔ وہ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کیا اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں ہے کہ ”پھر عنقریب ان سے ہلکا حساب لیا جائے گا۔“ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس سے مراد صرف پیشی ہے۔ مجھ سے عمرو بن علی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عثمان بن اسود نے، انہوں نے کہا میں نے ابن ابی ملیکہ سے سنا، کہا کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے ایسا ہی سنا۔ اور اس روایت کى متابعت ابن جریج، محمد بن سلیم، ایوب اور صالح بن رستم نے ابن ابی ملیکہ سے کی ہے، انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے۔
حدیث حاشیہ:
عثمان بن اسود کے ساتھ اس حدیث کو ابن جریج اور محمد بن سلیم اور ایوب سختیانی بن رستم نے بھی ابن ابی ملیکہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔ ابن جریج اور محمد بن سلیم کی روایتوں کو ابو عوانہ نے اپنی صحیح میں اور ایوب سختیانی کی روایت کو امام بخاری نے تفسیر میں اور صالح کی روایت کو اسحاق بن راہویہ نے اپنی مسند میں وصل کیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abi Mulaika (RA) : 'Aisha (RA) said, "The Prophet (ﷺ) said, 'Anybody whose account (record) is questioned will surely be punished.' I said, 'Doesn't Allah say: 'He surely will receive an easy reckoning?' (84.8) The Prophet (ﷺ) replied. 'This means only the presentation of the account."'