تشریح:
(1) ان احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مضمون بیان فرمائے ہیں: شروع میں انسانی تخلیق کے ان چند مراحل کا ذکر ہے جن سے انسان نطفۂ امشاج کے بعد نفخ روح تک رحم مادر میں گزرتا ہے۔ ان مراحل کا ذکر اگلے مضمون کے لیے بطور تمہید ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس نوشتہ (لکھے ہوئے) کا ذکر کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کا مقرر کیا ہوا فرشتہ نفخ روح کے وقت پیدا ہونے والے انسان کے متعلق لکھتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی نوشتۂ تقدیر کی وضاحت کے پیش نظر ان احادیث کو یہاں بیان کیا ہے۔
(2) کچھ اہل علم نے تقدیر کی درج ذیل چار قسمیں بیان کی ہیں: ٭ تقدیر ازلی: اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا ازلی اور ابدی علم ہے۔ کہیں بھی اس سے ذرہ بھر مختلف نہیں ہو سکتا، مگر یہ ازلی علم بندوں کو ان کے اعمال و کردار میں مجبور نہیں کرتا۔ اس ازلی تقدیر کی دو قسمیں ہیں: (ا) علم: اللہ تعالیٰ کو اس سب کچھ کا علم ہے جو کائنات میں ہونے والا ہے یا اس کی مخلوق کرنے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے ازلی علم کے ذریعے سے ان تمام چیزوں کو اجمالاً و تفصیلاً جاننے والا ہے جو ظاہر ہو چکی ہیں یا وجود میں آنے والی ہیں۔ (ب) کتابت: اللہ تعالیٰ نے اپنے ازلی علم کے مطابق تمام اشیاء کو لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ سب سے پہلی چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی وہ قلم تھی، پھر اسے فرمایا لکھ۔ اس نے عرض کی: اے میرے رب! میں کیا لکھوں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قیامت قائم ہونے تک ہر ہر چیز کی تقدیر لکھ دے، چنانچہ اس نے لکھ دیا۔ (سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4700) ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے کائنات میں ہونے والے تمام واقعات کو تحریر کر لیا تھا۔ (صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6748 (2653)) ان دونوں قسموں کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کے علم میں ہے؟ یہ سب لکھی ہوئی کتاب میں محفوظ ہے۔‘‘ (الحج: 70/22) تقدیر عمری: انسان نے عمر بھر میں جو کچھ کرنا ہے وہ الگ سے محفوظ ہے اس کی پھر دو قسمیں ہیں: (ا) اولاد آدم سے عہد و پیمان لیتے وقت لکھا گیا تھا جیسا کہ سورۂ اعراف کی آیت: 172 میں ہے۔ (ب) شکم مادر میں تقدیر عمری کا بیان امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ پہلی حدیث میں ہے۔ ٭ تقدیر یومی: ہر روز اس کے تازہ فیصلے نافذ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہر روز کوئی بیمار ہو رہا ہے، کسی کو بیماری سے شفا دے رہا ہے، کوئی موت کے گھاٹ اتر رہا ہے: ’’ہر روز (ہر وقت) وہ ایک (نئی) شان میں ہے۔‘‘ (الرحمٰن: 29/55) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے روایات کے حوالے سے لکھا ہے کہ جو امور انسان کو دنیا میں پیش آنے والے ہوتے ہیں وہ سب لکھ دیے جاتے ہیں حتی کہ جو ذرا سی خراش بھی لگنی ہے وہ بھی لکھ دی جاتی ہے، اور ان امور کی کتابت کسی متعلق دفتر میں ہوتی ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے: ’’پھر یہ صحیفہ لپیٹ دیا جاتا ہے اور اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوتی۔‘‘ (صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6725 (2644)، و فتح الباري: 588/11) واللہ أعلم