باب: جس کے حساب میں کھود کرید کی گئی اس کو عذاب کیا جائے گا
)
Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: Anybody whose account is questioned will surely be punished)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6595.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص سے بھی قیامت کے دن حساب لیا گیا تو وہ ہلاک ہوا۔“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا اللہ تعالٰی نے خود نہیں فرمایا: جس شخص کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا تو عنقریب اس سے آسان حساب لیا جائے گا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس سے مراد تو اعمال کا پیش کیا جانا ہے قیامت کے دن جس کا باریک بینی سے محاسبہ ہوا تو اسے یقیناً عذاب سے دو چار ہونا پڑے گا۔“
تشریح:
(1) حساب کتاب کے وقت جس انسان پر جرح و قدح کی گئی کہ تو نے یہ کام کیوں کیا اور یہ کام کیوں چھوڑا تو ایسے انسان کی تباہی یقینی ہے، البتہ حساب يسير خوش بختی کی علامت ہے جیسا کہ ایک حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے بعض نمازوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا کرتے سنا: ’’اے اللہ! میرا حساب آسان فرما۔‘‘ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آسان حساب کا مطلب کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’اے عائشہ! آسان حساب یہ ہے کہ بندے کے نامۂ اعمال پر سرسری نظر ڈالی جائے اور اس سے درگزر کی جائے۔ عائشہ! جس کے حساب میں باریک بینی سے کام لیا گیا اور اس دن جرح و قدح کی گئی تو وہ ہلاک ہو جائے گا۔‘‘ (مسند أحمد: 48/6) (2) حدیث نجوی میں بھی یہی مضمون بیان ہوا ہے، چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص اپنے رب کے قریب ہو گا اللہ تعالیٰ اس پر اپنا پردہ ڈال کر فرمائے گا: تو نے فلاں، فلاں عمل کیا تھا؟ بندہ ہاں میں جواب دے کر ان کا اقرار کرے گا، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں نے دنیا میں تجھ پر پردہ ڈالا تھا اور آج بھی تجھے معاف کرتا ہوں۔‘‘ (صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7514)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6308
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6537
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6537
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6537
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
مناقشه، نقش سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں: پاؤں سے کانٹا نکالنا۔ اصطلاحی طور پر مناقشه یہ ہے کہ محاسبہ کرنے میں انتہا کو پہنچنا، یعنی بال کی کھال اتارنا حتی کہ بڑی اور چھوٹی ہر چیز کا مطالبہ کرتے وقت کسی قسم کی نرمی کا مظاہرہ نہ کرنا۔ (فتح الباری: 11/487)
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص سے بھی قیامت کے دن حساب لیا گیا تو وہ ہلاک ہوا۔“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا اللہ تعالٰی نے خود نہیں فرمایا: جس شخص کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا تو عنقریب اس سے آسان حساب لیا جائے گا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس سے مراد تو اعمال کا پیش کیا جانا ہے قیامت کے دن جس کا باریک بینی سے محاسبہ ہوا تو اسے یقیناً عذاب سے دو چار ہونا پڑے گا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) حساب کتاب کے وقت جس انسان پر جرح و قدح کی گئی کہ تو نے یہ کام کیوں کیا اور یہ کام کیوں چھوڑا تو ایسے انسان کی تباہی یقینی ہے، البتہ حساب يسير خوش بختی کی علامت ہے جیسا کہ ایک حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے بعض نمازوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا کرتے سنا: ’’اے اللہ! میرا حساب آسان فرما۔‘‘ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آسان حساب کا مطلب کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’اے عائشہ! آسان حساب یہ ہے کہ بندے کے نامۂ اعمال پر سرسری نظر ڈالی جائے اور اس سے درگزر کی جائے۔ عائشہ! جس کے حساب میں باریک بینی سے کام لیا گیا اور اس دن جرح و قدح کی گئی تو وہ ہلاک ہو جائے گا۔‘‘ (مسند أحمد: 48/6) (2) حدیث نجوی میں بھی یہی مضمون بیان ہوا ہے، چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص اپنے رب کے قریب ہو گا اللہ تعالیٰ اس پر اپنا پردہ ڈال کر فرمائے گا: تو نے فلاں، فلاں عمل کیا تھا؟ بندہ ہاں میں جواب دے کر ان کا اقرار کرے گا، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں نے دنیا میں تجھ پر پردہ ڈالا تھا اور آج بھی تجھے معاف کرتا ہوں۔‘‘ (صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7514)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا، کہا ہم سے حاتم بن ابوصغیرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن ابی ملیکہ نے بیان کیا، کہا مجھ سے قاسم بن محمد نے بیان کیا اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، جس شخص سے بھی قیامت کے دن حساب لیا گیا پس وہ ہلاک ہوا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا اللہ تعالیٰ نے خود نہیں فرمایا ہے کہ ”پس جس کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیاگیا تو عنقریب اس سے ایک آسان حساب لیا جائے گا۔“ اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو صرف پیشی ہوگی۔ (اللہ رب العزت کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ) قیامت کے دن جس کے بھی حساب میں کھود کرید کی گئی اس کو عذاب یقینی ہوگا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : Allah's Apostle, said, "None will be called to account on the Day of Resurrection, but will be ruined." I said "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Hasn't Allah said: 'Then as for him who will be given his record in his right hand, he surely will receive an easy reckoning? (84.7-8) -- Allah's Apostle (ﷺ) said, "That (Verse) means only the presentation of the accounts, but anybody whose account (record) is questioned on the Day of Resurrection, will surely be punished."