تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ کا اس عنوان سے مقصود نماز باجماعت کی اہمیت کو بیان کرنا ہے کہ فرض جماعت کی موجودگی میں کوئی دوسری نماز نہیں ہوتی۔ اس کے لیے انھوں نے جو عنوان منتخب فرمایا ہے وہ دراصل ایک حدیث کے الفاظ ہیں جسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ (صحیح مسلم، الصلاة،حدیث:1644(716)) ان کے علاوہ دیگر اصحاب السنن نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ چونکہ اس حدیث کے مرفوع یا موقوف ہونے کے متعلق معمولی سا اختلاف تھا جس کی طرف امام مسلم نے اشارہ کیا ہے، (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1648(710)) اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو متن میں بیان نہیں کیا بلکہ حسب عادت اسے عنوان کے لیے منتخب کیا ہے۔ اس حدیث کا مضمون صحیح تھا، اس لیے دیگر احادیث سے اس کی تائید فرمائی ہے۔
(2) عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تکبیر ہوجائے تو ہر قسم کی نماز منع ہے، خواہ سنت ہوں یا نوافل اور راتبہ ہوں یاغیر راتبہ، البتہ الفاظ کے اعتبار سے ہر قسم کے فرائض اس سے خارج ہیں۔ بعض اہل علم نے نماز فجر کی تکبیر کے بعد چند شرائط کے ساتھ فجر کی دو سنت ادا کرنے کی گنجائش پیدا کی ہے، چنانچہ متداول درسی بخاری کے حاشیے پر بیہقی کے حوالے سے یہ حدیث بیان کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب نماز کی تکبیر ہوجائے تو فرض نماز کے علاوہ دوسری کوئی نماز نہیں ہوتی، ہاں فجر کی دو سنتیں پڑھی جاسکتی ہیں۔‘‘ (حاشیہ بخاری:1/91، طبع ھند) بلاشبہ یہ حدیث بیہقی: (2/483) میں موجود ہے لیکن امام بیہقی نے خود اس روایت کوبیان کرنے کے بعد لکھا ہے کہ مذکورہ اضافہ بالکل بے اصل اور بے بنیاد ہے، نیز اس کی سند میں حجاج بن نصر اور عباد بن کثیر دوراوی ضعیف ہیں۔ اس کے برعکس امام بیہقی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت بایں الفاظ بیان کی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب نماز فجر کی تکبیر ہوجائے تو دوسری کوئی نماز نہیں ہوتی۔‘‘ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! ایسے حالات میں فجر کی دو سنتیں پڑھنا بھی درست نہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، تکبیر کے بعد فجر کی دوسنتیں پڑھنا بھی جائز نہیں۔‘‘ (السنن الکبرٰی للبیهقي:483/2) اس کی سند میں اگرچہ مسلم بن خالد نامی راوی متکلم فیہ ہے لیکن امام ابن حبان نے اسے ثقہ کہا ہے اور اپنی صحیح میں اسے قابل حجت قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اس روایت کو ابن عدی نے حسن سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:2/194) حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس شخص کو پیٹتے تھے جو نماز کی تکبیر ہوجانے کے بعد کسی دوسری نماز میں مشغول ہوتا، نیز حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ ایسے شخص کو کنکریاں مارتے تھے۔ (السنن الکبرٰی للبیهقي:2/483) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ تکبیر ہوجانے کے بعد فجر کی سنتیں ادا کرنا اور فرض نماز میں شمولیت نہ کرنا صحیح نہیں۔
(3) ایک تاریخی دستاویز: مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر استاذ الا ساتذہ سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کا وہ مکتوب نقل کردیا جائے جو انھوں نے صحیح بخاری کے حاشیہ نگار مولانا احمد علی سہارنپوری کے نام رقم فرمایا: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ عاجزو ناتواں سید محمد نذیرحسین کی طرف سے مولانا احمد علی سہارنپوری کے نام۔ السلام عليكم ورحمة الله وبركاته! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ دین خیر خواہی کا نام ہے، سو امر نبوی کا اتباع کرتے ہوئے جناب کی خیر خواہی مطلوب ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ انسان کے گناہ گار ہونے کےلیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو (بلاتحقیق) آگے نقل کردے۔ اس حدیث نبوی کے پیش نظر میں آپ کو آگاہ کرتا ہوں کہ آپ نے بخاری شریف کی ایک حدیث، کہ جب نماز کی تکبیر ہوجائے تو فرض نماز کے علاوہ دوسری کوئی نماز نہیں ہوتی، کے حاشیے میں بیہقی کے حوالے سے اپنے استاد محترم مولانا محمد اسحاق کا قول نقل کیا ہے جس سے نماز فجر کی جماعت کھڑے ہونے کے باوجود سنت فجر پڑھنے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ آپ کی اس بات کو قابل اعتنا سمجھتے ہوئے بہت سے طلبہ بلکہ بعض اکابر اہل علم کا یہ عمل ہے کہ ایک طرف فجر کی جماعت کھڑی ہوتی ہے اور دوسری طرف وہ فجر کی سنتیں پڑھتے رہتے ہیں اور وہ نماز فجر کے فوت ہونے کی کوئی پروا نہیں کرتے، حالانکہ پیش کردہ روایت کہ آخر میں استثنائی جملے کا اضافہ جو آپ کی دلیل ہے وہ بے بنیاد ہے اور محققین ثقات نے اسے ناقابل اعتبار قرار دیا ہے، خاص طور پر خود امام بیہقی نے اس کی تردید فرمائی ہے۔ ان کے نزدیک حدیث صحیح کے آخر میں مذکورہ اضافہ عباد بن کثیر اور حجاج بن نصر کی طرف سے وضع کردہ ہے۔ فاضل مکرم! میرا گمان ہے کہ آپ نے اپنے استاذ مکرم سے امام بیہقی کا نقل کردہ کلام پوری طرح سماعت نہیں فرمایا کیونکہ امام بیہقی خود فرماتے ہیں کہ یہ اضافہ بالکل بے اصل ہے یا پھر مولانا محمد اسحاق کی طرف سے ضعف مزاج کی وجہ سے نقل کرنے میں تسامح ہوا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ثقات محققین نے ان الفاظ کے اضافے کو باطل قرار دیا ہے، جیسا کہ شیخ سلام اللہ شرح موطا میں لکھتے ہیں: ’’مسلم بن خالد نے عمرو بن دینار سے نقل کیا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث بیان کی تو آپ سے عرض کیا گیا کہ فجر کی سنت پڑھنی بھی درست نہیں؟ تو آپ نے فرمایا: ’’ہاں، جب فرض نماز کی تکبیر ہوجائے تو کوئی نماز حتی کہ فجر کی دوسنت پڑھنا بھی جائز نہیں۔‘‘ اس روایت کو ابن عدی نے حسن سند سے بیان کیا ہے۔ ایک روایت میں فجر کی دو سنت ادا کرنے کا استثنا ہے۔ امام بیہقی نے اس کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ اضافہ بے بنیاد ہے۔ شیخ نورالدین نے بھی اس اضافہ کو وضع کردہ قرار دیا ہے اور دوسری کتب موضوعات میں بھی اس کی صراحت موجود ہے۔ ’’ایسے حالات میں حفاظت دین کے پیش نظر اپ کے لیے ضروری ہے کہ ثقات محققین کی کتب سے اس اضافے کی صحت کو ثابت کریں یا پھر اپنے موقف سے رجوع کرکے اپنے طلبہ کو مطلع کریں کہ یہ اضافہ مردود اور ناقابل عمل ہے، نیز اس کے مسنون ہونے کا عقیدہ باطل ہے۔ میں امید رکھتا ہوں کہ آپ جواب باصواب سے ضرور مطلع فرمائیں گے تا کہ غفلت شعار لوگوں کی تنبیہ اور جہالت پیشہ لوگوں کے لیے بیداری کا باعث ہو۔ والسلام مع الا حترام۔
(4) ہماری معلومات کے مطابق مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی نے یہ خط 1293 میں مولانا احمد علی سہارنپوری کو لکھا اور انھوں نے اسے وصول