تشریح:
(1) اس حدیث میں بیماری کی اس حد کو بیان کیا گیا ہے جس کی موجودگی میں نمازی کو جماعت میں شریک ہونا چاہیے۔ اگر مرض اس سے بڑھ جائے تو گھر میں نماز ادا کر نے کی اجازت ہے، چنانچہ اگر بیماری بڑھ جائے کہ بغیر سہارے کے چلنا دشوار ہوتو گھر میں نماز پڑھ لینی چاہیے، ہاں اگر سہارا موجود ہوتو جماعت میں حاضر ہوجانا چاہیے، لیکن اس سے پہلے ایک حدیث میں ہے: ’’اگر انھیں معلوم ہوجائے کہ ان نمازوں میں کس قدر اجرو ثواب ہے تو ان میں ضرور حاضر ہوں، خواہ انھیں گھٹنوں کے بل چل کر آنا پڑے۔‘‘ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:657) اس فرمان نبوی کے پیش نظر اسے مبالغے پر محمول کیا جائے گا، یا پھر ایسی صورت ہو کہ جب سہارا بھی موجود نہ ہو اور انسان خود بھی نہ چل سکتا ہوتو ایسے حالات میں گھر پر نماز پڑھنے کی رخصت ہے، تاہم جماعت میں حاضری عزیمت ضرور ہے۔ (فتح الباري:198/2)
(2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی ازواج مطہرات کو حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ والی عورتیں قرار دینے سے مراد یہ تھا کہ جس طرح انھوں نے خلاف باطن کا اظہار کیا اسی تمھارے دل میں بات کچھ اور ہے اور ظاہر کچھ اور کررہی ہو۔ دراصل یوسف علیہ السلام کے ساتھ والی عورتوں سے مراد عزیز مصر کی بیوی ہے۔ اسی طرح آپ نے اگرچہ جمع کا صیغہ استعمال کرکے سب ازواج کو مخاطب کیا لیکن مراد صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما تھیں۔ اس مشابہت کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ عزیز مصر کی بیوی نے خواتین مصر کی دعوت کا اہتمام کیا، بظاہر وہ ان کی مہمان نوازی کررہی تھی لیکن مقصود یہ تھا کہ وہ بھی ذرا حسن یوسف کا نظارہ کرلیں تاکہ مجھے ایک زر خرید غلام سے محبت کرنے میں معذور خیال کریں، اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما بظاہر یہ کہہ رہی تھیں کہ ان کہ والد رقت قلبی کی وجہ سے جماعت نہیں کرواسکیں گے، لہٰذا یہ ذمے داری کسی اور کے سپرد کی جائے لیکن ان کا مقصود یہ تھا کہ ایسے حالات میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مصلائے نبوت پر کھڑے ہونے سے لوگ بد شگونی لیں گے، اس لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق عذر خواہی کر رہی تھیں، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے خود ایک حدیث میں اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4445)