تشریح:
(1) بنی اسرائیل کے تین شخصوں: کوڑھ والے، گنجے اور نابینے کا واقعہ مشہور ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسرے مقام پر تفصیل سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3464) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس دوسرے جز کے جواز یا عدم جواز کے متعلق کوئی قطعی فیصلہ بیان نہیں کیا کیونکہ حدیث میں ایک فرشتے کی بات ہے جو بطور امتحان کہی گئی تھی، لہذا اس میں احتمال کی گنجائش ہے اور جس میں دوسرے پہلو کا احتمال ہو اس سے استدلال منع ہوتا ہے، البتہ امام مہلب نے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد ان الفاظ میں بیان کیا ہے: امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک ماشاءالله ثم ما شئت کہنا جائز ہے، پھر بطور دلیل مذکورہ حدیث بیان کی ہے جس میں أنا بالله ثم بك استعمال ہوا ہے، کیونکہ اس میں ''ثم'' کا استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت بندوں کی مشیت پر مقدم ہے۔ چونکہ اس سلسلے میں صریح حدیث ان کی شرائط کے مطابق نہ تھی، اس لیے انہوں نے ایک صحیح حدیث سے اس کا جواز استنباط کیا جو ان کی شرط کے مطابق تھی۔ (فتح الباري: 658/11)
(2) اسی طرح أعوذ بالله وبك جائز نہیں کیونکہ واؤ سے اشتراک لازم آتا ہے جبکہ أعوذ بالله ثم بك جائز ہے کیونکہ '' ثم'' سے اشتراک لازم نہیں آتا بلکہ یہ لفظ تراخی کو چاہتا ہے۔ (عمدة القاري: 702/15)
(3) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت مذکورہ حدیث درج ذیل وجوہات کی بنا پر پیش کی ہے: ٭ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث ان الفاظ میں مروی ہے: ’’جب تم میں سے کوئی قسم اٹھائے تو یوں نہ کہے ماشاءالله و شئت بلکہ اس طرح کہے: ماشاءالله ثم شئت (سنن ابن ماجة، الکفارات، حدیث: 2117) ٭ أنا بالله ثم بك سے غیراللہ کی قسم کا جواز کشید کیا جا سکتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے تنبیہ فرمائی ہے کہ قسم کے علاوہ تو جائز ہے لیکن قسم اٹھاتے وقت یہ انداز صحیح نہیں کیونکہ اس کے متعلق بصراحت حکم امتناعی ہے۔ (فتح الباري: 659/11)