تشریح:
(1) قسم کی تین قسمیں ہیں: صریح: اس میں نیت اور ارادے کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ وہ اپنے مفہوم میں اس قدر واضح ہوتی ہے کہ اسے اٹھاتے ہی منعقد ہو جاتی ہے۔ ٭ کنایہ: وہ اپنے مفہوم اور مدعیٰ میں واضح نہیں ہوتی۔ اس میں انسان کے عزم و ارادے کو دیکھا جاتا ہے۔ نیت کی صورت میں وہ منعقد ہو جاتی ہے۔ ٭ متردد: اس کا واضح فیصلہ نہیں ہوتا۔ اگر اسے صریح سے ملایا جائے تو ارادہ دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور اگر اسے کنائے سے ملایا جائے تو نیت کا اعتبار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کو بعض لوگوں نے متردد قسم میں شمار کیا ہے لیکن ہمارے رجحان کے مطابق صفات ذات کو صریح سے ملانا چاہیے اور صفات فعل کو کنائے میں شمار کیا جائے۔
(2) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ عزت الٰہی کی قسم سے منع کرتے تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عزت اس کی صفت ذات ہے اور اس کی قسم اٹھانا جائز ہے جیسا کہ روایت میں ہے لیکن حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ممانعت کا حکم محل نظر ہے کیونکہ اس روایت کی سند معیار صحت کے مطابق نہیں ہے۔ (فتح الباري: 665/11)
(3) صفت قدم کے متعلق ہم اپنی گزارشات کتاب التوحید میں بیان کریں گے، البتہ اس بات کا اظہار ضروری خیال کرتے ہیں کہ اسے ظاہر پر محمول کرتے ہوئے مبنی بر حقیقت تسلیم کیا جائے۔ اس کی تاویل کرنا علمائے سلف کا طریقہ نہیں۔ اس کی کیفیت بیان کرنا بھی بدعتی حضرت کا وتیرہ ہے۔
(4) بعض حضرات کی طرف سے یہ تاویل کی گئی ہے کہ قدم سے مراد ایک مخلوق ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے پیدا کیا تھا۔ ان کے سر کتوں اور چوپایوں کے سروں جیسے اور باقی اعضاء انسانوں جیسے ہیں۔ انہوں نے نافرمانی کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کر دیا۔ جب دوزخ زیادہ طلب کرے گی تو اللہ تعالیٰ اس مخلوق کو اس میں ڈال دے گا۔ نعوذ بالله من ذالك۔ صفات باری تعالیٰ کے متعلق اس طرح رکیک تاویلات کرنا اہل علم کی شان کے خلاف ہے۔ واللہ أعلم