تشریح:
(1) لوگوں کی عادت ہے کہ وہ کسی فائدے کے حصول یا کسی نقصان کے دور ہونے کی نذر مانتے ہیں۔ اس قسم کی نذر سے منع کیا گیا ہے کیونکہ ایسا کرنا بخیلوں کا کام ہے، وہ بھی صدقہ خیرات نہیں کرتے لیکن جب کسی خوف یا حرص کے باعث کوئی نذر مانتے ہیں تو مال خرچ کرتے ہیں۔ اگر خوف یا طمع نہ ہو تو ایک کوڑی خرچ کرنے کے روادار نہیں ہیں جبکہ سخی آدمی ایسا نہیں کرتا۔ سخی آدمی تو سخاوت کے ساتھ کسی طمع یا خوف کو وابستہ ہی نہیں کرتا۔
(2) واضح رہے کہ نذر، دعا کی طرح ہے۔ دونوں اللہ تعالیٰ کی تقدیر کو رد نہیں کرتیں لیکن تقدیر کا حصہ ضرور ہیں، اس کے باوجود دعا کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور نذر سے منع کیا گیا ہے۔ اس کا سبب اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ دعا عبادت عاجلہ ہے، انسان اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس کے حضور عجز و انکسار پیش کرتا ہے جبکہ نذر میں عبادت کسی مفاد سے وابستہ کی جاتی ہے اور کسی ضرورت کے پورا ہونے کے بعد عبادت کو سر انجام دیا جاتا ہے۔ بہرحال نذر طاعت کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے اور مفادات کی نذر کو بنظر استحسان نہیں دیکھا گیا اور نہ اس کو اچھا ہی سمجھا گیا ہے اگرچہ اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ واللہ أعلم