تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اس روایت کو دو مختلف الفاظ سے بیان کیا ہے:ایک روایت میں اِذَا حَضَرَ ہے جس کے معنی ہیں:جب وہ حاضر اور تیار ہو۔ دوسری روایت میں ہے، اِذَا وُضِعَ ’’جب اسے پیش کردیا جائے۔‘‘ چونکہ حَضَرَکے الفاظ میں زیادہ عموم ہے، لہٰذا اسےوُضِعَ کے معنی میں لیا جائے گا۔ اس تائید دیگر روایات سے بھی ہوتی ہے جن کے الفاظ إذا قدم یا إذا قرب ہیں۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ جب کھانا موجود ہویا اسے بول وبراز مجبور کررہے ہوں تو ایسے حالات میں نماز نہیں ہوتی۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1246(560) وفتح الباري:280/2) (2) کھانے کو نماز پر مقدم کرنے کے سلسلے میں علماء وفقہاء نے مختلف توجیہات بیان کی ہیں:بعض علماء کہتے ہیں کہ جب کھانا خراب ہونے کا اندیشہ ہوتو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ یہ قلت طعام پرمحمول ہے کہ کھانا تھوڑا ہو اور کھانے والے زیادہ ہوں اور اندیشہ ہوکہ اگر نماز شروع کردی گئی تو کھانا ختم ہوجائے گا، ایسے حالات میں پہلے کھانا کھا لیا جائے ، پھر نماز پڑھی جائے ۔ ہمارے نزدیک بہتر توجیہ یہ ہے کہ مذکورہ اجازت اس وقت ہے جبکہ اشتغال قلب کا اندیشہ ہو، یعنی اگر کھانا نہ کھایا جائے تو نماز میں خیال کھانے کی طرف لگا رہے۔ اگر ایسی صورت ہوتو پہلے کھانا کھائے پھر نماز پڑھے۔ امام بخاری ؒ کا میلان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے کیونکہ حضرت ابو درداء ؓ کے مقولے میں اس بات کی صراحت ہے۔ امام بخاری ؒ کا رجحان عنوان کے تحت دیے گئے آثار سے معلوم ہوتا ہے۔ (فتح الباري:20/2) والله أعلم.