Sahi-Bukhari
10. Call to Prayers (Adhaan)
38. Chapter: The superiority of going to the mosque (every) morning and in the afternoon and evening [for the congregational Salat (prayers)]
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: The superiority of going to the mosque (every) morning and in the afternoon and evening [for the congregational Salat (prayers)])
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
672.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ’’جو شخص مسجد کی طرف صبح و شام بار بار آتا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی مہمانی تیار کرتا ہے، جب بھی وہ صبح اور شام (مسجد میں) آتا اور جاتا ہے۔‘‘
تشریح:
(1) لغت کے اعتبار سے غَدَا کے معنی صبح کے وقت آنا اور رَاحَ کے معنی شام کے وقت آنا، ہیں لیکن عام طور پر یہ دونوں لفظ آمدورفت کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں عنوان کی عبارت(فضل من خرج) ہے، یعنی غَدَا کےبجائے خَرَجَ کا لفظ ہے جو صبح وشام دونوں وقت آنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، اس لیے راح کے معنی لوٹنا اور واپس ہونا ہیں۔ اس وضاحت کے پیش نظر مسجد میں آنے اور پھر واپس ہونے، دونوں کا ثواب ملے گا۔ (2) چونکہ الفاظ حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسجد کی طرف جانے کا ثواب ہو کیونکہ عبادت کے لیے جانا ہے لیکن وہاں سے نکلنے اور واپس ہونے پر ثواب نہ ہو، امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان قائم کر کے تنبیہ فرمائی ہے کہ مسجد سے واپس ہونے پر بھی ثواب ہو گا، چنانچہ ایک حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک آدمی کا گھر مسجد نبوی سے کافی دور تھا اور وہ نماز باجماعت ادا کرنے کا موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا۔ لوگوں نے اس سے کہا: تم کوئی سواری خرید لو تاکہ تمھیں گرمی اور رات کے وقت آنے جانے میں سہولت رہے۔ اس نے جواب دیا کہ مسجد کے قریب قیام رکھنا مجھے پسند نہیں ہے۔ لوگوں نے اس بات کو برا محسوس کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی یہ بات بیان کی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا تو اس نے عرض کیا: ’’میں چاہتا ہوں کہ دور سے میرا مسجد میں آنا اور مسجد سے واپس ہونا دونوں اللہ کے ہاں لکھے جائیں۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تجھے اللہ تعالیٰ نے یہ سب عطا فرمادیا ہے۔ جس اجرو ثواب کی تونے امید کی ہے، اللہ نے وہ سب عنایت فرما دیا ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث:557) (3) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عبادت کے لیے مسجد کی طرف آنا اور مسجد سے واپس لوٹ کر جانا دونوں باعث اجرو ثواب ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
654
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
662
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
662
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
662
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ’’جو شخص مسجد کی طرف صبح و شام بار بار آتا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی مہمانی تیار کرتا ہے، جب بھی وہ صبح اور شام (مسجد میں) آتا اور جاتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) لغت کے اعتبار سے غَدَا کے معنی صبح کے وقت آنا اور رَاحَ کے معنی شام کے وقت آنا، ہیں لیکن عام طور پر یہ دونوں لفظ آمدورفت کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں عنوان کی عبارت(فضل من خرج) ہے، یعنی غَدَا کےبجائے خَرَجَ کا لفظ ہے جو صبح وشام دونوں وقت آنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، اس لیے راح کے معنی لوٹنا اور واپس ہونا ہیں۔ اس وضاحت کے پیش نظر مسجد میں آنے اور پھر واپس ہونے، دونوں کا ثواب ملے گا۔ (2) چونکہ الفاظ حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسجد کی طرف جانے کا ثواب ہو کیونکہ عبادت کے لیے جانا ہے لیکن وہاں سے نکلنے اور واپس ہونے پر ثواب نہ ہو، امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان قائم کر کے تنبیہ فرمائی ہے کہ مسجد سے واپس ہونے پر بھی ثواب ہو گا، چنانچہ ایک حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک آدمی کا گھر مسجد نبوی سے کافی دور تھا اور وہ نماز باجماعت ادا کرنے کا موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا۔ لوگوں نے اس سے کہا: تم کوئی سواری خرید لو تاکہ تمھیں گرمی اور رات کے وقت آنے جانے میں سہولت رہے۔ اس نے جواب دیا کہ مسجد کے قریب قیام رکھنا مجھے پسند نہیں ہے۔ لوگوں نے اس بات کو برا محسوس کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی یہ بات بیان کی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا تو اس نے عرض کیا: ’’میں چاہتا ہوں کہ دور سے میرا مسجد میں آنا اور مسجد سے واپس ہونا دونوں اللہ کے ہاں لکھے جائیں۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تجھے اللہ تعالیٰ نے یہ سب عطا فرمادیا ہے۔ جس اجرو ثواب کی تونے امید کی ہے، اللہ نے وہ سب عنایت فرما دیا ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث:557) (3) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عبادت کے لیے مسجد کی طرف آنا اور مسجد سے واپس لوٹ کر جانا دونوں باعث اجرو ثواب ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن ہارون واسطی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں محمد بن مطرف نے زید بن اسلم سے خبر دی، انھوں نے عطاء بن یسار سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے، انھوں نے حضرت نبی کریم ﷺ سے آپ نے فرمایا کہ جو شخص مسجد میں صبح شام بار بار حاضری دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی مہمانی کا سامان کرے گا۔ وہ صبح شام جب بھی مسجد میں جائے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Allah will prepare for him who goes to the mosque (every) morning and in the afternoon (for the congregational prayer) an honorable place in Paradise with good hospitality for (what he has done) every morning and afternoon goings.