تشریح:
(1) نماز مغرب کا ذکر کرنے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ باقی نمازوں میں بالاولیٰ کھانے کو نماز پر ترجیح دی جائے گی بشرطیکہ اشتغال قلب کا اندیشہ ہو کیونکہ نماز مغرب کا وقت کم ہوتا ہے، وقت کی کمی کے باوجود اگر کھانے کو نماز پر ترجیح دی جارہی ہے تو جب وقت بھی وسیع ہوتو بالاولیٰ کھانا نماز پر مقدم ہونا چاہیے۔ (حاشیة السندي:23/1)
(2) حدیث میں لفظ عَشَاء ہے جس کے لغوی معنی’’رات کا کھانا‘‘ ہیں لیکن مفہوم کے اعتبار سے مطلق کھانا مراد ہے، رات کے وقت کھانے کی تخصیص نہیں، جیسا کہ امام بخاری ؒ نے عنوان قائم کرکے اس کی وضاحت کردی ہے بلکہ حضرت ابو درداء ؓ نے اس سے بھی عام معنی مراد لیا ہے کہ کھانے کہ علاوہ کوئی بھی حاجت ہو، پہلے اسے پورا کرنا چاہیے، پھر فارغ البال ہو کر نماز کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ امام طحاوی ؒ نے لکھا ہے کہ یہ حدیث صائم، یعنی روزے دار کے ساتھ خاص ہے، لیکن اس کی علت کا تقاضا ہے کہ اسے اپنے عموم پر رہنے دیا جائے۔ اگر چہ اس روایت میں صلاۃ مغرب کا ذکر ہے لیکن یہ حصر کے لیے نہیں ہے، کیونکہ بھوک روزے دار کے علاوہ دوسرے کو بھی پریشان کرسکتی ہے، بہرحال وقت اور کھانے کی کوئی قید نہیں۔ جب بھی کوئی چیز نمازی کے لیے پریشانی کا باعث ہو پہلے اسے دور کردیا جائے، پھر فراغت کے بعد نماز پڑھی جائے۔ (فتح الباري:208/2)