تشریح:
(1) اس عنوان اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تقدیم طعام کا حکم بطور استحباب ہے۔ بعض حضرات نے اس سلسلے میں اس طرح وضاحت کی ہے کہ تقدیم طعام کی اجازت اس شخص کے لیے ہے جس نے ابھی کھانا شروع نہیں کیا اور جس نے اقامت سے پہلے کھانا شروع کردیا تھا، پھر نماز کے لیے تکبیر ہوئی تو اسے نماز کے لیے اٹھ جانا چاہیے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ گویا امام بخاری ؒ کے نزدیک دونوں صورتوں کا حکم الگ الگ ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ امام بخاری کے نزدیک امام اور غیر امام کا حکم الگ الگ ہو، یعنی تقدیم طعام کا حکم عام لوگوں کےلیے ہے اور امام کے لیے یہ ہے کہ وہ پہلے نماز پڑھائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اسی وقت کھانا چھوڑ دیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام آدمی اگر کھانے میں مشغول رہتا ہے تو اس کی وجہ سے لوگ پریشان ہوں گے اور انھیں بلاوجہ انتظار کی زحمت برداشت کرنا پڑے گی۔
(2) علامہ سندھی لکھتے ہیں کہ تقدیم طعام اس صورت میں ہے جب بھوک شدید ہو اور کھانا چھوڑ کر نماز شروع کرنے میں خشوع کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ وہ کھانا کھا رہے تھے اور تنور میں گوشت بھونا جا رہا تھا، اتنے میں مؤذن نے تکبیر کہنے کا ارداہ کیا تو حضرت ابن عباس ؓ نے اسے فرمایا: جلدی مت کرو! مبادا دوران نماز میں ہمارا خیال ادھر رہے۔ البتہ جب نمازی اپنی اس قدر حاجت پوری کرچکا ہو کہ خشوع کے فوت ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو نماز کو مقدم رکھنا چاہیے۔ (حاشیة السندي:123/1) کھانا کھانے کی رخصت کو انتہائی مجبوری کی صورت پر محمول کرنا چاہیے، اسے عادت اور معمول نہیں بنانا چاہیے۔ اور بلاوجہ نماز باجماعت ترک نہیں کرنی چاہیے۔ انسان کو دنیا میں زیادہ سے زیادہ اعمال خیر ذخیرہ کرنے چاہئیں تاکہ قیامت کے دن کام آئیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ﴿وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ﴾ ’’ہر شخص کو سوچنا چاہیے کہ اس نے کل آخرت کے لیے کیا ذخیرہ کیا ہے؟‘‘