Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: The limit set for a patient to attend the congregational Salat (prayer)?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
675.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب نبی ﷺ بیمار ہوئے اور آپ کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ نے اپنی بیویوں سے اجازت چاہی کہ میرے گھر آپ کی تیمارداری کی جائے۔ تمام بیویوں نے اجازت دے دی، چنانچہ آپ دو آدمیوں کا سہارا لے کر نکلے جبکہ آپ کے پاؤں گھسٹ رہے تھے۔آپ اس وقت حضرت عباس ؓ اور ایک دوسرے آدمی کے درمیان تھے۔ راوی حدیث حضرت عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں: میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے حضرت عائشہ ؓ کی اس بات کا تذزکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ دوسرا آدمی کون تھا جس کا حضرت عائشہ ؓ نے نام نہیں لیا؟ میں نے کہا: نہیں، کہنے لگے: علی بن ابی طالب ؓ تھے۔
تشریح:
(1)ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بریرہ اور حضرت نوبہ رضی اللہ عنہ کا سہارا لے کر نکلے۔ امام نوی رحمہ اللہ نے تطبیق اس طرح بیان کی ہے کہ آپ گھر سے مسجد تک ان دو صحابیات کے درمیان آئے ہوں گے اور اس کے بعد مصلی تک حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان ہوں گے۔اسی طرح کچھ روایات میں حضرت فضل بن عباس اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم کے نام بھی ذکر ہوئے ہیں۔ امام نوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسے تعدد واقعات پر محمول کیا جائے گا۔(فتح الباری:2/201) واضح رہے کہ حضرت علی،حضرت فضل بن عباس اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہم کو باری باری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سہارا دینے کا اعزاز حاصل ہوتا رہا جبکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ عمر میں بڑے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہونے کا اعزاز بھی رکھتے تھے،اس لیے انھیں متعدد بار آپ کا دست مبارک پکڑنے کا موقع ملا۔غالبا یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے ان کا نام تو صراحت سے لیا اور دیگر سہارا دینے والوں کا نام مبہم رکھا کیونکہ دوسرا آدمی ہر مرتبہ بدلتا رہتا تھا۔(عمدۃ القاری:1/268)(2)اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ رونے سے نماز نہیں ٹوٹتی،خواہ بکثرت ہی کیو ں نہ ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی رقت قلبی اور کثرت گریہ سے واقف تھے اس کے باوجود آپ نے انھیں منصب امامت سے سرفراض فرمایا اور رونے سے منع بھی نہیں فرمایا۔(فتح الباری:2/203)(3)اس حدیث میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خلیفۂ بلا فصل ہونے کی واضح دلیل ہے کیونکہ نماز کے لیے امامت جوکہ امامت صغریٰ ہے، امامت کبریٰ، یعنی خلافت کے اہم وظائف میں سے ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو یہ منصب عطا کرکے منصب خلافت کی تفویض کا واضح اشارہ دیا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی بادشاہ بوقت وفات اپنی اولاد میں سے کسی ایک کو تخت پر بٹھا دے۔ باقی رہا یہ اعتراض کہ اگر امامت صغریٰ میں امامت کبریٰ کی طرف واضح اشارہ تھا تو خلافت کے متعلق صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں اختلاف کیون ہوا؟اس اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے غم میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس قدر پریشان تھے کہ اس وقت بڑے بڑے معاملات ان کی نظروں سے اوجھل ہوگئے اور ایسا ہونا ایک فطری امر تھا۔(حاشیۃ السندی: 1/122)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
657
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
665
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
665
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
665
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ کا اس عنوان سے مقصود بیماری کی اس حد کو بیان کرنا ہے جس کے پیش نظر مریض کو نماز باجماعت میں شریک ہونا چاہیے۔اگر بیماری اس حد سے تجاوز کر جائے تو اس کا جماعت میں شریک ہونا ضروری نہیں۔ لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ مرض اور مریض کے حالات مختلف ہوتے ہیں، لہٰذا اس سلسلے میں کوئی ضابطہ بنانا مشکل ہے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کئی روز تک صاحب فراش رہے اور آپ اس دوران میں بہت سی نمازوں میں شریک نہیں ہوئے۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب نبی ﷺ بیمار ہوئے اور آپ کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ نے اپنی بیویوں سے اجازت چاہی کہ میرے گھر آپ کی تیمارداری کی جائے۔ تمام بیویوں نے اجازت دے دی، چنانچہ آپ دو آدمیوں کا سہارا لے کر نکلے جبکہ آپ کے پاؤں گھسٹ رہے تھے۔آپ اس وقت حضرت عباس ؓ اور ایک دوسرے آدمی کے درمیان تھے۔ راوی حدیث حضرت عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں: میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے حضرت عائشہ ؓ کی اس بات کا تذزکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ دوسرا آدمی کون تھا جس کا حضرت عائشہ ؓ نے نام نہیں لیا؟ میں نے کہا: نہیں، کہنے لگے: علی بن ابی طالب ؓ تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1)ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بریرہ اور حضرت نوبہ رضی اللہ عنہ کا سہارا لے کر نکلے۔ امام نوی رحمہ اللہ نے تطبیق اس طرح بیان کی ہے کہ آپ گھر سے مسجد تک ان دو صحابیات کے درمیان آئے ہوں گے اور اس کے بعد مصلی تک حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان ہوں گے۔اسی طرح کچھ روایات میں حضرت فضل بن عباس اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم کے نام بھی ذکر ہوئے ہیں۔ امام نوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسے تعدد واقعات پر محمول کیا جائے گا۔(فتح الباری:2/201) واضح رہے کہ حضرت علی،حضرت فضل بن عباس اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہم کو باری باری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سہارا دینے کا اعزاز حاصل ہوتا رہا جبکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ عمر میں بڑے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہونے کا اعزاز بھی رکھتے تھے،اس لیے انھیں متعدد بار آپ کا دست مبارک پکڑنے کا موقع ملا۔غالبا یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے ان کا نام تو صراحت سے لیا اور دیگر سہارا دینے والوں کا نام مبہم رکھا کیونکہ دوسرا آدمی ہر مرتبہ بدلتا رہتا تھا۔(عمدۃ القاری:1/268)(2)اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ رونے سے نماز نہیں ٹوٹتی،خواہ بکثرت ہی کیو ں نہ ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی رقت قلبی اور کثرت گریہ سے واقف تھے اس کے باوجود آپ نے انھیں منصب امامت سے سرفراض فرمایا اور رونے سے منع بھی نہیں فرمایا۔(فتح الباری:2/203)(3)اس حدیث میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خلیفۂ بلا فصل ہونے کی واضح دلیل ہے کیونکہ نماز کے لیے امامت جوکہ امامت صغریٰ ہے، امامت کبریٰ، یعنی خلافت کے اہم وظائف میں سے ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو یہ منصب عطا کرکے منصب خلافت کی تفویض کا واضح اشارہ دیا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی بادشاہ بوقت وفات اپنی اولاد میں سے کسی ایک کو تخت پر بٹھا دے۔ باقی رہا یہ اعتراض کہ اگر امامت صغریٰ میں امامت کبریٰ کی طرف واضح اشارہ تھا تو خلافت کے متعلق صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں اختلاف کیون ہوا؟اس اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے غم میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس قدر پریشان تھے کہ اس وقت بڑے بڑے معاملات ان کی نظروں سے اوجھل ہوگئے اور ایسا ہونا ایک فطری امر تھا۔(حاشیۃ السندی: 1/122)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں ہشام بن یوسف نے خبر دی معمر سے، انھوں نے زہری سے، کہا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے خبر دی کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ جب نبی کریم ﷺ بیمار ہو گئے اور تکلیف زیادہ بڑھ گئی تو آپ نے اپنی بیویوں سے اس کی اجازت لی کہ بیماری کے دن میرے گھر میں گزاریں۔ انھوں نے اس کی آپ کو اجازت دے دی۔ پھر آپ باہر تشریف لے گئے۔ آپ کے قدم زمین پر لکیر کر رہے تھے۔ آپ اس وقت عباس ؓ اور ایک اور شخص کے بیچ میں تھے ( یعنی دونوں حضرات کا سہارا لیے ہوئے تھے ) عبیداللہ راوی نے بیان کیا کہ میں نے یہ حدیث حضرت عائشہ ؓ کی عبداللہ بن عباس ؓ سے بیان کی، تو آپ نے فرمایا اس شخص کو بھی جانتے ہو، جن کا نام حضرت عائشہ ؓ نے نہیں لیا۔ میں نے کہا کہ نہیں! آپ نے فرمایا کہ وہ دوسرے آدمی حضرت علی ؓ تھے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد باب منعقد کرنے اور یہ حدیث لانے سے ظاہر ہے کہ جب تک مریض کسی نہ کسی طرح سے مسجد میں پہنچ سکے حتی کہ کسی دوسرے آدمی کے سہارے سے جاسکے تو جانا ہی چاہئے۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کے سہارے مسجد میں تشریف لے گئے۔
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: و مناسبۃ ذلک من الحدیث خروجہ صلی اللہ علیہ وسلم متوکنا علی غیرہ من شدۃ الضعف فکانہ یشیر الی انہ من بلغ الی تلک الحال لا یستحب لہ تکلف الخروج للجماعۃ الا اذا وجد من یتوکاءعلیہ ( فتح الباری ) یعنی حدیث سے اس کی مناسبت بایں طور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر سے نکل کر مسجد میں تشریف لانا شدت ضعف کے باوجود دوسرے کے سہارے ممکن ہوا۔ گویا یہ ا س طرف اشارہ ہے کہ جس مریض کا حال یہاں تک پہنچ جائے اس کے لیے جماعت میں حاضری کا تکلف مناسب نہیں۔ ہاں اگر وہ کوئی ایسا آدمی پالے جو اسے سہارا دے کر پہنچا سکے تو مناسب ہے۔
حدیث سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری وقت میں دیکھ لیا تھا کہ امت کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے زیادہ موزوں کوئی دوسرا شخص اس وقت نہیں ہے۔ اس لیے آپ نے بار بار تاکید فرما کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی کو مصلے پر بڑھایا۔ خلافت صدیقی کی حقانیت پر اس سے زیادہ واضح اور دلیل نہیں ہو سکتی بلکہ جب ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس سلسلے میں کچھ معذرت پیش کی اور اشارہ کیا کہ محترم والد ماجد بے حد رقیق القلب ہیں۔ وہ مصلے پر جا کر رونا شروع کردیں گے لہٰذا آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو امامت کا حکم فرمائیے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا ایسا خیال بھی نقل کیا گیا ہے کہ اگر والد ماجد مصلے پر تشریف لائے اور بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا تو عوام حضرت والد ماجد کے متعلق قسم قسم کی بدگمانیاں پیدا کریں گے۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر کہ تم یوسف علیہ السلام کی ساتھ والیوں جیسی ہو سب کو خاموش کردیا۔ جیسا کہ زلیخا کی سہیلیوں کا حال تھا کہ ظاہر میں کچھ کہتی تھیں اور دل میں کچھ اور ہی تھا۔ یہی حال تمہارا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس واقعہ سے بہت سے مسائل ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً
( 1 ) ایسے شخص کی اس کے سامنے تعریف کرنا جس کی طرف سے امن ہو کہ وہ خود پسندی میں مبتلا نہ ہوگا۔
( 2 ) اپنی بیویوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرنا۔
( 3 ) چھوٹے آدمی کو حق حاصل ہے کہ کسی اہم امر میں اپنے بڑوں کی طرف مراجعت کرے۔
( 4 ) کسی عمومی مسئلہ پر باہمی مشورہ کرنا۔
( 5 ) بڑوں کا ادب بہرحال بجا لانا جیسا کہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کو دیکھ کر پیچھے ہٹنے لگے۔
( 6 ) نماز میں بکثرت رونا۔
( 7 ) بعض اوقات محض اشارے کا بولنے کے قائم مقام ہو جانا۔
( 8 ) نماز باجماعت کی تاکید شدید وغیرہ وغیرہ۔ ( فتح الباری )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): "When the Prophet (ﷺ) became seriously ill and his disease became aggravated he asked for permission from his wives to be nursed in my house and he was allowed. He came out with the help of two men and his legs were dragging on the ground. He was between Al-Abbas and another man." 'Ubaid Ullah said, "I told Ibn 'Abbas (RA) what 'Aisha (RA) had narrated and he said, 'Do you know who was the (second) man whose name 'Aisha (RA) did not mention'" I said, 'No.' Ibn 'Abbas (RA) said, 'He was ' Ali Ibn Abi Talib (RA) .' "