تشریح:
(1) حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں چھ سال عمر تھی۔ ممکن ہےکہ انھوں نے اپنے والد، چچا اور دیگر بزرگوں کے ہمراہ شرابی کو مارتے وقت شرکت کی ہو، لہٰذا ان کا اسے مارنے کے فعل کو اپنی طرف منسوب کرنا حقیقت پر مبنی ہوگا۔
(2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ شرابی کو حد لگانے کے متعلق علمائے امت کی چھ آراء ہیں: راجح رائے یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق کوئی حد مقرر نہیں کہ بلکہ شرابی کے حسب حال صرف زدوکوب کیا جاتا تھا اور اسے شرمسار کیا جاتا، نیز عار دلانے پر اکتفا کیا جاتا تھا۔ اگر اس سلسلے میں کوئی حد مقرر کی ہوتی تو اسے وضاحت سے بیان کیا جاتا۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں یہ وبا زیادہ ہوئی تو انھوں نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا اور چالیس (40)، پھر اسی (80) کوڑے مقرر کیے، جن لوگوں سے مشورہ لیا گیا انھوں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد یا عمل پیش نہیں کیا بلکہ عقل و رائے سے کام لے کر انھیں مشورہ دیا۔(3) امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی یہی رجحان معلوم ہوتا ہے کیونکہ انھوں نے کوڑوں کی تعداد کے متعلق کوئی عنوان قائم نہیں کیا اور نہ تعداد ہی کے تعین میں کوئی مرفوع حدیث ذکر کی ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ امر پر اکتفا کیا جائے۔ زیادہ سے زیادہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے پر عمل کیا جا سکتا ہے تاکہ لوگ اس ام الخبائث کو منہ لگانے سے پرہیز کریں۔ (فتح الباري: 91/12)