تشریح:
(1)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں نہیں جانتا کہ حدود کفارہ ہیں؟‘‘ (المستدرك للحاکم:450/2، حدیث:3683) اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع فرمایا کہ حدود کفارہ ہیں اور گناہوں سے پاکیزگی کا ذریعہ ہیں۔ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں گناہوں کے ساتھ شرک کے ذکر کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ اگر مشرک کو دنیا میں سزا مل جائے تو وہ اس کے شرک کا کفارہ ہوگا کیونکہ کفارومشرکین کا دوزخ میں ہمیشہ رہنا یقینی ہے اور امت کا اس پر اجماع ہے۔ اس بنا پر اس حدیث کے ایک مخصوص معنی ہیں کہ جس مسلمان پر حد قائم ہوگئی تو وہ اس کے لیے کفارہ ہوگی۔
(2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو آیت کریمہ تلاوت فرمائی وہ حسب ذیل ہے: ’’اے نبی! جب آپ کے پاس اہل ایمان خواتین اس بات پر بیعت کرنے کے لیے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں گی،نہ وہ چوری کریں گی اور نہ وہ زنا کریں گی،نہ وہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان کوئی بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی(بے بنیاد اور بلا ثبوت بہتان طرازی نہیں کریں گی)اور کسی نیک کام میں آپ کی نافرمانی نہ کریں گی تو آپ ان سے بیعت کریں اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کریں،یقیناً اللہ تعالیٰ بے حد بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔‘‘ (الممتحنة:50: 12) واضح رہے کہ اس حدیث میں بیعت مذکور فتح مکہ کے بعد ہوئے تھی کیونکہ آیت مذکورہ فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی تھی اور لیلۂ عقبہ میں جو بیعت ہوئی تھی وہ تنگی وآسانی اور خوشی وپریشانی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سمع واطاعت پر تھی۔ (فتح الباري:103/12) واللہ أعلم