تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا مقصود اس حدیث کے ذریعے سے اپنے موقف کو مضبوط کرنا ہے کہ منصب امامت اہل علم و فضل کے لائق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ باربار حضرت ابوبکر ؓ کے متعلق اصرار کررہے ہیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ بعض حضرات نے ایک حدیث کی بنا پر جس میں سب سے زیادہ قاری کو مقدم کرنے کا ذکر ہے، یہ موقف اختیار کیا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں جو سب سے بڑا قاری ہوتا تھا وہ سب سے بڑا عالم بھی ہوتا تھا، اس لیے آپ نے فرمایا کہ قرآن کا زیادہ قاری امامت کرائے۔ یہ موقف صحیح نہیں کیونکہ اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ حضرت ابی بن کعب ؓ کو منصب امامت پر فائز کیا جاتا کہ وہ بڑے قاری ہونے کی وجہ سے بڑے عالم بھی تھے جیسا کہ ان کا أَقرَأ (بڑاقاری) ہونا حدیث سے ثابت ہے۔ (سنن ابن ماجة، المقدمة، حدیث:154) پھر وہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں اس وصف کے ساتھ مشہور تھے جیسا کہ حضرت عمر ؓ نے ان کے متعلق فرمایاتھا کہ حضرت ابی ؓ قرآن کے بڑے قاری ہیں۔ (صحیح البخاري، فضائل القرآن، حدیث:5005) الغرض امامت کے لیے اہل علم وتقویٰ حضرات کا انتخاب کرنا چاہیے۔ (حاشیة السندي:124/1)
(2) صحیح بخاری کی ایک روایت میں خود حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ جو چیز مجھے بار بار رسول اللہ ﷺ سے تکرار پرابھاررہی تھی وہ یہ تھی کہ لوگ کبھی بھی اس شخص سے محبت نہیں رکھیں گے جو آپ ﷺ کی جگہ پر کھڑا ہوگا۔ میرے خیال کے مطابق ایسے حالات میں جو بھی آپ کے مقام پر کھڑا ہوگا۔ لوگ اس کے متعلق برا شگون رکھیں گے، چنانچہ میں چاہتی تھی کہ رسول اللہ ﷺ خود ہی حضرت ابو بکر ؓ کو اس "خرابی" سے بچا لیں۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4445) اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ظاہر وباطن کے تضاد میں تم یوسف علیہ السلام کے ساتھ والی عورتوں کی طرح معلوم ہوتی ہو اور حضرت حفصہ ؓ چونکہ اس سے پہلے بھی شہد والے واقعے میں حضرت عائشہ ؓ کی بات ماننے کی وجہ سے زیر عتاب آچکی تھیں، اس لیے فرمایا کہ میرا تم سے کسی بھلائی کی توقع رکھنا عبث ہے۔ والله أعلم۔