تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس انسان کو کسی گناہ کی سزا مل جائے اور اس پر حد قائم ہو جائے تو وہ اس کے جرم کی پاکیزگی کا ذریعہ ہے، نیز وہ اس گناہ کا کفارہ بن جاتی ہے، جب اس کے ساتھ توبہ بھی کرلی جائے تو سونے پر سہاگا ہے اور اس سے وہ اپنی حالت پر واپس آجائے گا اور فسق کا دھبا بھی اس سے دور ہو جائے گا۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی گواہی بھی قبول ہے۔
(2) حدیث کے آخر میں امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنا رجحان بھی بیان کر دیا ہے کہ ہر وہ شخص جسے حد لگائی گئی ہو جب وہ اپنے جرم سے توبہ کرلے تو اس کی گواہی قبول ہوگی۔(فتح الباري:132/12) ڈاکا زنی کی حد بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’یہ کام ان کے لیے دنیا میں ذلت کا باعث ہے اور آخرت میں اس کی پاداش میں بہت بڑے عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔پھر فرمایا: مگر جو لوگ توبہ کرلیں پہلے اس سے کہ تم ان پر قابو پاؤ تو جان لوکہ اللہ تعالیٰ بے حد بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔‘‘ (المائدة: 5: 33، 34)
(3) اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ توبہ کرنے سے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ کو معاف کر دیتا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ توبہ کرنے سے حقوق اللہ تو معاف ہو جائیں گے لیکن حقوق العباد ادا کیے جائیں یا وہ معاف کرا لیے جائیں۔ واللہ أعلم