تشریح:
(1) عربوں کے ہاں ہاتھ پاؤں کاٹنے کے بعد انھیں جلتے تیل میں داغ دینے کا رواج تھا، اس طرح وہ زخم جلدی ٹھیک ہو جاتے لیکن ان ظالموں کو داغنے کے بغیر ہی چھوڑ دیا گیا، اس طرح وہ تڑپ تڑپ کر مرگئے۔ مفسرین کی تصریح کے مطابق درج بالا آیت کریمہ اس واقعے کے پس منظر میں نازل ہوئی۔
(2) امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ کفارومرتدین تھے جیسا کہ ان کے قائم کردہ عنوان سے ظاہر ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اگرچہ یہ آیت کفارومرتدین کے متعلق نازل ہوئی ہے، لیکن الفاظ کے عموم کے اعتبار سے ہر جنگجو کے لیے ہے جو مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کے ساتھ ڈاکا زنی کا مرتکب ہو، البتہ ان کی سزائیں مختلف ہیں: اگر وہ کافر ہیں تو حاکم وقت کی صوابدید پر موقوف ہے کہ ان کے ساتھ کیا برتاؤ کرنا ہے اور اگر وہ مسلمان ہیں تو ان کے جرم کی نوعیت کو دیکھا جائے گا۔ اگر اس نے قتل کیا ہے تو اس کے بدلے اسے قتل کیا جائے گا، اگر مال لوٹا ہے تو ہاتھ کاٹا جائے۔ اگر قتل یا مال لوٹنے کا ارتکاب نہیں کیا تو بحالئ امن کے لیے اسے جلا وطن کیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم (فتح الباري:134/12)