تشریح:
بدھ کے دن رسول اللہ ﷺ سیدہ عائشہ ؓ کے گھر تشریف لائے اور بڑے ٹب میں بیٹھ کر پانی کی سات مشکیں سر پر ڈالیں، کچھ سکون ہوا تو مسجد میں آ گئے، نماز پڑھائی اور خطبہ دیا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4449) جمعرات کے دن بیماری نے شدت اختیار کر لی، اسی حالت میں آپ نے فرمایا: ’’لاؤ میں تمھیں کچھ لکھوا دوں تاکہ میرے بعد تم گمراہ نہ ہوجاؤ۔‘‘ اسی روز آپ نے تین وصیتیں فرمائیں۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4431) اسی دن آپ نے نماز مغرب پڑھائی جس میں سورۃ المرسلات کی تلاوت فرمائی۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4429) اسی دن نماز عشاء کے لیے آپ نے تین مرتبہ مسجد میں جانے کا ارادہ فرمایا لیکن غسل کرنے کے بعد جب بھی اٹھنے کا ارادہ فرماتے تو بے ہوش ہو جاتے، بالآخر آپ نے فرمایا: ’’ابوبکر سے کہو وہ نماز پڑھائے۔‘‘ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:687) چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ نے آپ کی زندگی میں سترہ نمازیں پڑھائیں۔ ہفتہ یا اتوار کے دن حضرت عباس اور حضرت علی ؓ کے سہارے مسجد میں تشریف لائے جبکہ ظہر کی نماز کھڑی ہوچکی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر ؓ کے پہلو میں بیٹھ کر نماز پڑھائی۔ (صحیح البخاري، حدیث:687) اگلے دن صبح کی نماز کے وقت پردہ اٹھایا، اس وقت نماز ہورہی تھی۔ تھوڑی دیر تک اس نظارۂ پاک کو ملاحظہ فرمایا جو آپ کی تعلیم کا نتیجہ تھا۔ اس نظارے سے رخ انور پر بشاشت اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ آخر کار نزع کی حالت شروع ہوئی۔ پانی کا پیالہ آپ کے سرہانے رکھا ہوا تھا۔ آپ اس میں ہاتھ ڈالتے اور چہرۂ مبارک پر پھیر لیتے۔ اس دوران میں زبان مبارک سے فرماتے: ’’اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، موت میں تلخی ہوا ہی کرتی ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4449) آخر کار بارہ ربیع الاول 11 ہجری بروز پیر بوقت چاشت جسم اطہر سے روح انور نے پرواز کی۔ اس وقت آپ ﷺ کی عمر 63 سال 4 دن تھی۔ خطبے کے متعلق درج ذیل حدیث ہے: حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مرض وفات میں ہماری طرف نکلے، چادر لپیٹے ہوئے اور سر پر کالی پٹی باندھے ہوئے تھے حتی کہ آپ منبر پر تشریف فرما ہوئے، اللہ کی حمد وثنا کی اور انصار کے متعلق خطبہ دیا۔ یہ رسول اللہ ﷺ کی منبر پر آخری مجلس تھی۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث :3628)