Sahi-Bukhari
10. Call to Prayers (Adhaan)
43. Chapter: (WHat should one do) if the meal has been served and the Iqama has been pronounced for As-Salat(the prayer)
باب: جب کھانا حاضر ہو اور نماز کی تکبیر ہو جائے تو کیا کرنا چاہئے؟
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: (WHat should one do) if the meal has been served and the Iqama has been pronounced for As-Salat(the prayer))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابن عمر ؓ تو ایسی حالت میں پہلے کھانا کھاتے تھے اور ابودرداء ؓ فرماتے تھے کہ عقل مندی یہ ہے کہ پہلے آدمی اپنی حاجت پوری کر لے تا کہ جب وہ نماز میں کھڑا ہو تو اس کا دل فارغ ہو۔
682.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب کھانا سامنے رکھ دیا جائے تو نماز مغرب سے پہلے کھانا کھا لو اور اپنا کھانا چھوڑ کر نماز کے لیے عجلت نہ کرو۔‘‘
تشریح:
(1) نماز مغرب کا ذکر کرنے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ باقی نمازوں میں بالاولیٰ کھانے کو نماز پر ترجیح دی جائے گی بشرطیکہ اشتغال قلب کا اندیشہ ہو کیونکہ نماز مغرب کا وقت کم ہوتا ہے، وقت کی کمی کے باوجود اگر کھانے کو نماز پر ترجیح دی جارہی ہے تو جب وقت بھی وسیع ہوتو بالاولیٰ کھانا نماز پر مقدم ہونا چاہیے۔ (حاشیة السندي:23/1) (2) حدیث میں لفظ عَشَاء ہے جس کے لغوی معنی’’رات کا کھانا‘‘ ہیں لیکن مفہوم کے اعتبار سے مطلق کھانا مراد ہے، رات کے وقت کھانے کی تخصیص نہیں، جیسا کہ امام بخاری ؒ نے عنوان قائم کرکے اس کی وضاحت کردی ہے بلکہ حضرت ابو درداء ؓ نے اس سے بھی عام معنی مراد لیا ہے کہ کھانے کہ علاوہ کوئی بھی حاجت ہو، پہلے اسے پورا کرنا چاہیے، پھر فارغ البال ہو کر نماز کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ امام طحاوی ؒ نے لکھا ہے کہ یہ حدیث صائم، یعنی روزے دار کے ساتھ خاص ہے، لیکن اس کی علت کا تقاضا ہے کہ اسے اپنے عموم پر رہنے دیا جائے۔ اگر چہ اس روایت میں صلاۃ مغرب کا ذکر ہے لیکن یہ حصر کے لیے نہیں ہے، کیونکہ بھوک روزے دار کے علاوہ دوسرے کو بھی پریشان کرسکتی ہے، بہرحال وقت اور کھانے کی کوئی قید نہیں۔ جب بھی کوئی چیز نمازی کے لیے پریشانی کا باعث ہو پہلے اسے دور کردیا جائے، پھر فراغت کے بعد نماز پڑھی جائے۔ (فتح الباري:208/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
664
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
672
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
672
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
672
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
اگر نماز کےلیے تکبیر ہوجائے اور کھانا بھی سامنے موجود ہو تو کیا کرنا چاہیے؟امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے عنوان میں کسی فیصلہ کن امر کی نشاندہی نہیں فرمائی۔امام بخاری قوت اختلاف کی وجہ سے ایسا انداز اختیار کرتے ہیں،چنانچہ زہدوتقویٰ کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہر چیز پر نماز کو مقدم رکھا جائے مگر عقل اور فقہ اس کی اجازت نہیں دیتی،ان کا تقاضا ہے کہ دنیوی مشاغل سے فارغ ہوکر نماز میں کھڑے ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں امام بخاری نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے دو آثار پیش کیے ہیں:٭حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے معمول کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے آگے حدیث:673 میں موصولا بیان کیا ہے کہ وہ علی الا طلاق کھانے وغیرہ سے فراغت کو مقدم سمجھتے تھے:٭حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کے اثر سے معلوم ہوتا ہےکہ وہ مطلقا کھانے کو مقدم کرنے کی اجازت نہیں دیتے بلکہ ان کا کہنا ہے کہ جب دل کی توجہ کھانے کی طرف ہو تو پہلے کھانے سے فارغ ہونا چاہیے،پھر نماز کی طرف خیال کرنا چاہیے تاکہ فارغ البالی اور اطمینان وسکون سے نماز ادا کی جائے۔حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کے اثر کو امام ابن مبارک نے اپنی تالیف "کتاب الزہد" میں موصولا بیان کیا ہے۔(فتح الباری:2/207)
اور ابن عمر ؓ تو ایسی حالت میں پہلے کھانا کھاتے تھے اور ابودرداء ؓ فرماتے تھے کہ عقل مندی یہ ہے کہ پہلے آدمی اپنی حاجت پوری کر لے تا کہ جب وہ نماز میں کھڑا ہو تو اس کا دل فارغ ہو۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب کھانا سامنے رکھ دیا جائے تو نماز مغرب سے پہلے کھانا کھا لو اور اپنا کھانا چھوڑ کر نماز کے لیے عجلت نہ کرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) نماز مغرب کا ذکر کرنے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ باقی نمازوں میں بالاولیٰ کھانے کو نماز پر ترجیح دی جائے گی بشرطیکہ اشتغال قلب کا اندیشہ ہو کیونکہ نماز مغرب کا وقت کم ہوتا ہے، وقت کی کمی کے باوجود اگر کھانے کو نماز پر ترجیح دی جارہی ہے تو جب وقت بھی وسیع ہوتو بالاولیٰ کھانا نماز پر مقدم ہونا چاہیے۔ (حاشیة السندي:23/1) (2) حدیث میں لفظ عَشَاء ہے جس کے لغوی معنی’’رات کا کھانا‘‘ ہیں لیکن مفہوم کے اعتبار سے مطلق کھانا مراد ہے، رات کے وقت کھانے کی تخصیص نہیں، جیسا کہ امام بخاری ؒ نے عنوان قائم کرکے اس کی وضاحت کردی ہے بلکہ حضرت ابو درداء ؓ نے اس سے بھی عام معنی مراد لیا ہے کہ کھانے کہ علاوہ کوئی بھی حاجت ہو، پہلے اسے پورا کرنا چاہیے، پھر فارغ البال ہو کر نماز کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ امام طحاوی ؒ نے لکھا ہے کہ یہ حدیث صائم، یعنی روزے دار کے ساتھ خاص ہے، لیکن اس کی علت کا تقاضا ہے کہ اسے اپنے عموم پر رہنے دیا جائے۔ اگر چہ اس روایت میں صلاۃ مغرب کا ذکر ہے لیکن یہ حصر کے لیے نہیں ہے، کیونکہ بھوک روزے دار کے علاوہ دوسرے کو بھی پریشان کرسکتی ہے، بہرحال وقت اور کھانے کی کوئی قید نہیں۔ جب بھی کوئی چیز نمازی کے لیے پریشانی کا باعث ہو پہلے اسے دور کردیا جائے، پھر فراغت کے بعد نماز پڑھی جائے۔ (فتح الباري:208/2)
ترجمۃ الباب:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ (ایسے حالات میں نماز سے) پہلے رات کا کھانا تناول فرماتے۔ اور حضرت ابودرداء ؓ کا ارشاد گرامی ہے: آدمی کا پہلے اپنی ضرورت کو پورا کر لینا تاکہ اطمینان قلب کے ساتھ نماز کی طرف متوجہ ہو، اس کے عقل مند ہونے کی علامت ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے عقیل سے، انہوں نے ابن شہاب سے بیان کیا، انہوں نے انس بن مالک ؓ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب شام کا کھانا حاضر کیا جائے تو مغرب کی نماز سے پہلے کھانا کھا لو اور کھانے میں بے مزہ بھی نہ ہونا چاہئے اور اپنا کھانا چھوڑ کر نماز میں جلدی مت کرو۔
حدیث حاشیہ:
ان جملہ آثار اور احادیث کا مقصد اتنا ہی ہے کہ بھوک کے وقت اگر کھانا تیار ہو تو پہلے اس سے فارغ ہونا چاہئے، تاکہ نماز پورے سکون کے ساتھ ادا کی جائے اور دل کھانے میں نہ لگا رہے اور یہ اس کے لیے ہے جسے پہلے ہی سے بھوک ستا رہی ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "If the supper is served start having it before praying the Maghrib prayer and do not be hasty in finishing it."