تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ سے فرمایا کہ تم تو یوسف ؑ کے ساتھ والی عورتیں معلوم ہوتی ہو۔ شارحین نے اس جملے کے متعدد مفہوم بیان کیے ہیں:٭جس طرح حضرت یوسف ؑ سے مصر کی عورتیں ان کی مرضی کے خلاف گفتگو کرتی تھیں تم نے بھی وہی کردار ادا کیا ہے٭ حضرت یوسف ؑ اور خیال میں تھے اور خواتین مصر دوسرے خیال میں تھیں، اسی طرح تمھارے اور میرے خیالات میں ہم آہنگی اور یکسانیت نہیں۔٭یوسف ؑ کے وقت کی عورتیں اپنی ہی بات چلایا کرتیں تھیں تم نے بھی وہی وتیرہ اپنایا ہوا ہے۔
(2) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خود حضرت ابو بکر ؓ نے اپنی بیٹی حضرت عائشہ ؓ سے کہا تھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے اس سلسلے میں گفتگو کرے کیونکہ میں اس بار گراں کا متحمل نہیں ہوں۔ اتنے میں حضرت ابو بکر ؓ کے پاس حضرت بلال آئے اور انھیں جماعت کے لیے کہا تو انھوں نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا کہ اے عمر!آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ حضرت عمر ؓ نے جواب دیا کہ آپ ہی اس منصب کے حق دار ہیں۔ (فتح الباري:199/2)