تشریح:
(1) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ اس واقعے کے علاوہ ہے کیونکہ اس میں ہے کہ آدمی نے کسی عورت سے بوس وکنار کیا تھا اور اس واقعے میں ہے کہ اس نے کوئی قابل حد عمل کیا تھا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک بھی یہ دو واقعات ہیں اور انھوں نے ان واقعات سے دو الگ الگ حکم ثابت کیے ہیں۔
(2) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص مبہم طریقے سے حد کا اعتراف کرتا ہے تو قاضی کو چاہیے کہ اس پر پردہ ڈالے، اس کی کرید نہ کرے کیونکہ ایسا کرنا تجسس ہے جس کے متعلق قرآن نے حکم امتناعی جاری کیا ہے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں اس واقعے کی مزید تفصیل ملتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم گھر سے نماز کے ارادے سے نکلے تھے تو تم نے اچھی طرح وضو کیا تھا، پھر تم نے ہمارے ساتھ نماز باجماعت ادا کی تو ان کاموں کی بدولت اللہ تعالیٰ نے تمھاری حد یا تمھارے گناہ کو معاف کر دیا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، التوبة، حدیث:7007(2765) امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اس حدیث کے متعلق لوگوں کے تین موقف لکھے ہیں: ٭جرم کے واضح اعتراف اور غیر مبہم تعین کے بعد واجب ہوتی ہے جبکہ اقرار کرنے والا بار بار اس کا اصرار بھی کرے۔ ٭مذکورہ واقعہ صرف اسی شخص کے ساتھ خاص ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعۂ وحی اس سے مطلع کیا گیا تھا۔ ٭حد کا عمل کرنے کے بعد (معاملہ عدالت میں جانے سے پہلے) اگر توبہ کرلی جائے تو اس کی بدولت حد ساقط ہو جاتی ہے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اس آخری موقف کو ترجیح دی ہے۔ (فتح الباري:165/12) بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک اگر کوئی غیر واضح بیان دے کہ میں نے حد والا جرم کیا ہے تو امام اس کی پردہ پوشی کر سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف پردہ پوشی کی بلکہ گناہوں کی بخشش کی بشارت بھی دی۔