تشریح:
معلوم ہوا کہ قاضی کے لیے زنا کا اقرار کرنے والے کو تلقین کرنا جائز ہے تاکہ وہ اپنا دفاع کر سکے کیونکہ زنا کا اطلاق نظر بازی اور بوس وکنارپر بھی ہوتا ہے، پھر دو ٹوک الفاظ میں زنا کرنے کی وضاحت کرائے کیونکہ اشاروں کنایوں سے حدود ثابت نہیں ہوتیں، چنانچہ دیگر احادیث میں ہے کہ حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ نے جب اپنے متعلق چار دفعہ اقرار کیا کہ میں نے زنا کیا ہے، مجھ پر حد قائم کریں تو آپ نے فرمایا: ’’تو دیوانہ تو نہیں؟‘‘ پھر آپ نے اس کی قوم سے دریافت فرمایا: ’’اسے جنون کا مرض تو نہیں ہے؟‘‘ پھر حاضرین سے پوچھا: ’’اس نے شراب تو نہیں پی؟‘‘ انھوں نے منہ سونگھ کر بتایا کہ نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’شاید تو نے بوس وکنار سے کام لیا ہو یا تونے نظر بازی کی ہو؟‘‘ اس نے کہا: نہیں۔آپ نے فرمایا: ’’کیا تو اس کے ساتھ لیٹا تھا؟‘‘ کہا: ہاں۔ فرمایا: کیا تو نے اس سے مباشرت کی؟‘‘عرض کی: ہاں۔ فرمایا: ’’کیا تو نے اس سے جماع کیا؟‘‘ اس نے عرض کی: ہاں۔ اس روایت میں ہے کہ آپ نے جماع کے لیے دو ٹوک واضح اور صریح الفاظ استعمال فرمائے، کسی قسم کا اشارہ یا کنایہ نہ کیا۔ آپ نے مزید فرمایا: ’’کیا تونے دخول کیا تھا؟‘‘ عرض کی: ہاں۔ فرمایا: ’’جس طرح سرمچو، سرمے دانی میں اور ڈول، کنویں میں غائب ہو جاتا ہے؟‘‘ اس نے کہا: ہاں۔ آخر میں آپ نے فرمایا: ’’تجھے معلوم ہے زنا کسے کہتے ہیں؟‘‘ اس نے کہا: میں نے اس سے وہی کچھ کیا ہے جو ایک خاوند اپنی بیوی سے کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اب تو کیا چاہتا ہے؟‘‘ اس نے عرض کی: آپ مجھے پاک کر دیں۔اس طرح کے بہت سے مختلف قسم کے سوال کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا۔ (فتح الباري:152/12)