تشریح:
(1) جس وقت مقتدی زیادہ ہوں تو امام آگے اور مقتدی پیچھے کھڑے ہوتے ہیں اور اگر مقتدی ایک ہو تو اسے امام کی دائیں جانب کھڑا ہونا چاہیے۔ امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ اگر مقتدی زیادہ ہوں تو کسی ضرورت کے پیش نظر اگر کوئی مقتدی امام کے پہلو میں کھڑا ہوجائے تو ایسا کرنا بھی جائز ہے۔ اسے بیان کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا گیا ہے، لیکن عنوان میں مقتدی کا امام کے پہلو میں کھڑا ہونا مذکور ہے جبکہ حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا حضرت ابو بکر ؓ کے پہلو میں بیٹھنا بیان ہوا ہے۔ دراصل مذکورہ حدیث میں حضرت ابو بکر ؓ امام نہ تھے بلکہ رسول اللہ ﷺ امامت کا فریضہ سر انجام دے رہے تھے اور حضرت ابو بکر ؓ مقتدی تھے جو امام کے پہلو میں کھڑے تھے۔ امام بخاری ؒ نے اس صورت کا جواز بیان کیا ہے۔
(2) دو صورتوں کے علاوہ ایک صف میں مقتدی کا امام کے ساتھ کھڑا ہونا درست نہیں:٭جگہ تنگ ہو اور امام آگے کھڑا نہ ہوسکتا ہو۔٭ امام کے ساتھ صرف ایک ہی مقتدی جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابن عباس ؓ کو اپنی دائیں جانب کھڑا کیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو اپنے پہلو میں اس لیے کھڑا رکھا تھا تاکہ وہ آپ کی تکبیرات انتقال لوگوں کو سنا سکیں۔ (شرح الکرماني:25/2) حافظ ابن حجر ؒ نے مقتدی کو امام کے ساتھ ایک ہی صف میں کھڑا ہونے کی ایک مزید صورت بیان کی ہے جب نمازی عریاں ہو تو بھی امام اور مقتدی ایک ہی صف میں کھڑے ہوں گے۔ ان کے نزدیک بلا عذر ایک ہی صف میں کھڑے ہونا جائز ہے لیکن افضل نہیں۔ (فتح الباري:216/2) نیز عورتوں کی امام اگر عورت ہو تو بھی آگے نہیں بلکہ عورتوں کی پہلی صف کے درمیان میں کھڑی ہوگی۔