تشریح:
(1) اس طویل حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا درج ذیل ارشاد ہے: ’’یقیناً رجم کا حکم اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ہر اس شخص کے لیے ثابت ہے جس نے شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کیا ہو بشرطیکہ ان پر گواہی ثابت ہوجائے، خواہ وہ مرد ہویا عورت یا کسی عورت کو ناجائز حمل قرار پائے یا وہ خود اقرار کرے۔‘‘ اس سے امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ زنا سے حاملہ عورت کو رجم کیا جائے گا بشرطیکہ وہ شادی شدہ ہو، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنا حمل جنم دے لے۔ ابن بطال نے کہا کہ عنوان کے حسب ذیل معنی ہیں: ’’کیا زنا سے حاملہ پر رجم ہے یا نہیں؟ اس امر پر اجماع ہے کہ حمل وضع کرنے تک اسے رجم نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح اگر اس پر زنا کی وجہ سے کوڑوں کی سزا واجب ہے تو بھی بچہ جننے کا انتظار کیا جائے گا، نیز اگر قتل نیز اگر قتل ناحق کی وجہ سے اس پر قصاص واجب ہے تو اس کے بچہ پیدا ہونے کے بعد قصاص لیا جائے گا، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک حاملہ کو سنگسار کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ اس وقت تک رجم نہیں کر سکتے جب تک وہ اپنے پیٹ کے بچے کو جنم نہ دے۔ (فتح الباري:179/12)
(2) اگر بے شوہر حاملہ ہوجائے تو اس کے متعلق اختلاف ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں: اگر وہ کہے کہ مجھے زنا پر مجبور کیا گیا ہے یا میں نے شادی کر لی ہے تو اس کی بات نہیں مانی جائے گی بلکہ اس پر حد قائم کی جائے گی لیکن اگر وہ اپنے دعویٰ پر گواہ پیش کر دے تو حد زائل ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور اہل کوفہ کہتے ہیں کہ ایسی عورت کو حد نہ ماری جائے حتی کہ وہ خود اقرار کرے یا اس پر گواہ ثابت ہوں۔ (عمدة القاري:102/16)
(3)حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے خطاب میں سب سے پہلے آیت رجم کا ذکر کیا کیونکہ اس آیت کا حکم باقی ہے لیکن تلاوت منسوخ ہونے کی وجہ سے اس کے انکار کا اندیشہ تھا، چنانچہ یہ خدشہ واقع بھی ہو گیا جب خوارج کے ایک گروہ نے اس کا انکار کر دیا، اسی طرح معتزلہ نے بھی اسے تسلیم نہ کیا۔ دور حاضر کے معتزلہ اور خوارج بھی اسے نہیں مانتے بلکہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ آیت قرآن میں موجود تھی تو کہاں گئی، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تلاوت منسوخ کر دی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ہم آپ کو ضرور پڑھائیں گے پھر آپ نہیں بھولیں گے مگر جو اللہ چاہے۔‘‘ (الأعلیٰ87: 7.6) یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر اس کی تلاوت منسوخ ہے تو اس کا حکم کیسے باقی رہ گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس حکم کو باقی رکھنے کا ذریعہ یہ منسوخ التلاوت آیت نہیں بلکہ دوسری تین وجوہ ہیں: ٭تورات کا یہ حکم شریعت محمدیہ میں باقی رکھا گیا ہے جیسا کہ اہل کتاب کو رجم کرنے کے واقعے سے ثابت ہے۔ ٭وہ متواتر احادیث ہیں جن میں شادی شدہ زانی مرد، عورت کو سنگسار کرنے کا حکم ہے۔ ٭واقعات بھی اس حکم کو باقی رکھنے کا ذریعہ ہیں جن میں صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اس سزا کو برقرار رکھا۔ حدیث میں ہے کہ حضرت زید بن ثابت اور سعید بن عاص رضی اللہ عنہما جب مصاحف لکھ رہے تھے تو یہ آیت سامنے آئی۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ پڑھ رہے تھے: (الشيخ والشيخة إذا زنيا فارجموهما البتة نكالاً من الله والله عزيز حكيم) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اسے لکھنے کے متعلق عرض کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ناگوار خیال کیا بلکہ فرمایا: ’’اے عمر! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اگر بوڑھا زنا کرے اور اس نے شادی نہ کی ہو تو اسے کوڑے لگائے جاتے ہیں اور نوجوان اگر شادی شدہ ہو اور زنا کرے تو اسے سنگسار کیا جاتا ہے؟‘‘ (المستدرك للحاکم:436/4) اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ اس کی صرف تلاوت کیوں منسوخ کی گئی، یعنی عمل اس کے ظاہری عموم کے خلاف ہے۔ عموم کا تقاضا ہے کہ ہر قسم کے بوڑھے زانی مرد، عورت کو رجم کیا جائے جبکہ اس کے لیے شادی شدہ ہونا شرط ہے، خواہ وہ بوڑھا ہو یا جوان۔ واللہ أعلم. (فتح الباري:176/12) اس طویل حدیث میں دیگر بہت سی باتیں قابل غور ہیں جنھیں ہم پہلے بیان کرآئے ہیں۔ عنوان کے مطابق جو حصہ تھا اس کے متعلق ہم نے اپنی گزارشات پیش کر دی ہیں۔ واللہ المستعان.