قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الأَذَانِ (بَابُ مَنْ دَخَلَ لِيَؤُمَّ النَّاسَ، فَجَاءَ الإِمَامُ الأَوَّلُ، فَتَأَخَّرَ الأَوَّلُ أَوْ لَمْ يَتَأَخَّرْ، جَازَتْ صَلاَتُهُ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: فِيهِ عَائِشَةُ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ

684.  حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي حَازِمِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَهَبَ إِلَى بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ، فَحَانَتِ الصَّلاَةُ، فَجَاءَ المُؤَذِّنُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: أَتُصَلِّي لِلنَّاسِ فَأُقِيمَ؟ قَالَ: نَعَمْ فَصَلَّى أَبُو بَكْرٍ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ فِي الصَّلاَةِ، فَتَخَلَّصَ حَتَّى وَقَفَ فِي الصَّفِّ، فَصَفَّقَ النَّاسُ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ لاَ يَلْتَفِتُ فِي صَلاَتِهِ، فَلَمَّا أَكْثَرَ النَّاسُ التَّصْفِيقَ التَفَتَ، فَرَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنِ امْكُثْ مَكَانَكَ»، فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَدَيْهِ، فَحَمِدَ اللَّهَ عَلَى مَا أَمَرَهُ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ذَلِكَ، ثُمَّ اسْتَأْخَرَ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى اسْتَوَى فِي الصَّفِّ، وَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: «يَا أَبَا بَكْرٍ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَثْبُتَ إِذْ أَمَرْتُكَ» فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: مَا كَانَ لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يُصَلِّيَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا لِي رَأَيْتُكُمْ أَكْثَرْتُمُ التَّصْفِيقَ، مَنْ رَابَهُ شَيْءٌ فِي صَلاَتِهِ، فَلْيُسَبِّحْ فَإِنَّهُ إِذَا سَبَّحَ التُفِتَ إِلَيْهِ، وَإِنَّمَا التَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ»

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اس بارے میں حضرت عائشہ ؓ نے آنحضرت ﷺ سے روایت کیا ہے۔

684.

حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عمرو بن عوف قبیلے میں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے۔ جب نماز کا وقت ہوا تو مؤذن نے حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آ کر کہا: اگر آپ نماز پڑھائیں تو میں اقامت کہہ دوں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر ؓ نماز پڑھانے لگے۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے جبکہ لوگ نماز میں مصروف تھے۔ آپ صفوں میں سے گزر کر پہلی صف میں پہنچے۔ اس پر لوگوں نے تالیاں پیٹنا شروع کر دیں، لیکن ابوبکر ؓ اپنی نماز میں ادھر ادھر دیکھنے کے عادی نہ تھے۔ جب لوگوں نے مسلسل تالیاں بجائیں تو حضرت ابوبکر ؓ متوجہ ہوئے اور رسول اللہ ﷺ پر ان کی نظر پڑی (وہ پیچھے ہٹنے لگے) تو رسول اللہ ﷺ نے اشارہ کیا: تم اپنی جگہ پر ٹھہرے رہو۔ اس پر حضرت ابوبکر ؓ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں امامت کا اعزاز بخشا ہے، تاہم وہ پیچھے ہٹ کر لوگوں کی صف میں شامل ہو گئے اور رسول اللہ ﷺ نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔ فراغت کے بعد آپ نے فرمایا: ’’اے ابوبکر! جب میں نے تمہیں حکم دیا تھا تو تم کھڑے کیوں نہ رہے؟‘‘ حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا: ابوقحافہ کے بیٹے کی کیا مجال کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے آگے نماز پڑھائے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ’’کیا وجہ ہے کہ میں نے تمہیں بکثرت تالیاں بجاتے ہوئے دیکھا؟ (دیکھو!) جب کسی کو دوران نماز میں کوئی بات پیش آئے تو سبحان اللہ کہنا چاہئے کیونکہ جب وہ سبحان اللہ کہے گا تو اس کی طرف توجہ دی جائے گی اور تالی بجانا تو صرف عورتوں کے لیے ہے۔‘‘