تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب ذمی، اہل اسلام کی طرف رجوع کریں تو اہل اسلام اپنی شریعت کے مطابق فیصلہ کرنے کے پابند ہوں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سےتورات کا حکم اس لیے پوچھا تھا تاکہ انھیں الزام دے کر خاموش کرایا جائے۔ درج ذیل واقعے سے اس کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک یہودی نکلا جس کا منہ کالا کیا گیا تھا اور اسے کوڑے مارے گئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو بلایا اور اس سے پوچھا: ’’کیا تم اپنی کتاب میں زانی کی یہی سزا پاتے ہو؟‘‘ انھوں نے کہا: ہاں، پھر آپ نے ان کے علماء میں سے ایک عالم کو بلایا اور اسے فرمایا: ’’میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے موسیٰ علیہ السلام پر تورات نازل کی تھی! بتاؤ کیا تم اپنی کتاب میں زانی کی یہی سزا پاتے ہو؟‘‘ اس نے کہا: نہیں، اور اگر آپ مجھے اللہ کی قسم نہ دیتے تو میں آپ کو صحیح صورت حال سے آگاہ نہ کرتا۔ بات یہ ہے کہ ہم تورات میں رجم کی سزا ہی پاتے ہیں مگر جب ہمارے شرفاء میں زنا کی کثرت ہوگئی تو جب ہم کسی شریف کو پکڑتے تو اسے چھوڑ دیتے اور کوئی کمزور ہمارے قابو آ جاتا تو اس پر حد جاری کر دیتے، پھر ہم نے آپس میں کہا کہ ہم ایسی سزا پر اتفاق کر لیں جسے شریف ورذیل سب پر نافذ کرسکیں تو ہم نے کوڑے مارنا اور منہ کالا کرنا نافذ کر دیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے اللہ! سب سے پہلے میں تیرے اس حکم کو زندہ کرتا ہوں جبکہ ان لوگوں نے اسے مردہ کر دیا تھا۔‘‘ پھر آپ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا، چنانچہ وہ رجم کر دیا گیا، تب یہ آیت اتری: ’’اے رسول! آپ ان لوگوں سے غمزدہ نہ ہوں جو کفر میں دوڑ دھوپ کررہے ہیں......‘‘ (المائدة: 5: 41) یہودی کہا کرتے تھے کہ محمد کے پاس چلو، اگر وہ تمھیں منہ کالا کرنے اور کوڑے لگانے کا حکم دے تو اسے قبول کرلو اور اگر رجم کرنے کا فتویٰ دے تو اسے اجتناب کرو۔ (صحیح مسلم، الحدود،حدیث:4440(1700)
(2) قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق ہمیں اختیار ہے کہ یہودیوں کے جھگڑوں میں فیصلہ کریں یا نہ کریں لیکن اگر فیصلہ کریں تو عدل وانصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے بے لاگ فیصلہ کرنا ہوگا۔ واللہ أعلم