باب: امامت کرانے کا سب سے زیادہ حقدار وہ ہے جو علم اور (عملی طور پر بھی) فضیلت والا ہو۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: The religious learned men are entitled to precedence in leading the Salat (prayer))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
688.
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب نبی ﷺ بیمار ہوئے اور بیماری نے شدت اختیار کی تو آپ نے فرمایا: ’’ابوبکر سے کہو، وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘ اس پر حضرت عائشہ ؓ گویا ہوئیں: وہ نرم دل آدمی ہیں، جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو نماز نہ پڑھا سکیں گے۔ آپ نے فرمایا: ’’ابوبکر سے کہو، وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ نے پہلے والی بات پھر کہہ دی۔ آپ ﷺ نے سہ باری فرمایا: ’’تم ابوبکر سے کہو، وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ تم عورتیں مجھے حضرت یوسف ؑ کے ساتھ والی عورتیں معلوم ہوتی ہو۔‘‘ پھر ایک آدمی حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آیا اور انہوں نے نبی ﷺ کی حیات مبارکہ ہی میں لوگوں کو نماز پڑھائی۔
تشریح:
(1) امامت کے سلسلے میں حضرت امام بخاری ؒ کا موقف یہ ہے کہ اس کے لیے اہل علم و فضل کا انتخاب کرنا چاہیے۔ دین سے بے بہرہ شخص اس منصب کے قطعاً لائق نہیں، خواہ بہترین قاری ہی کیوں نہ ہو کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بڑھ کر صاحب علم و فضل تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انھیں مصلائے امامت پر مقرر فرمایا، لہٰذا اس عظیم منصب کے شایان شان یہی ہے کہ اس آدمی کو یہ اعزاز بخشا جائے جو علم وفضل میں عظیم تر ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امام صاحب کا مقصود جمہور کے موقف کی تائید کرنا ہو کہ علمائے حضرات بہ نسبت قراء حضرات کے منصب امامت کے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں حضرت ابی بن کعب ؓ سب سے بڑے قاری تھے۔ جیسا کہ نص حدیث سے ثابت ہے، اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا انتخاب فرمایا کیونکہ وہ علم وفضل میں سب سے زیادہ فائق تھے۔ (حاشیة السندي:124/1) (2) ایک حدیث میں ہے کہ لوگوں کا امام ایسا ہونا چاہیے جو قرآن کا زیادہ حافظ ہو، اگر اس وصف میں سب برابر ہوں تو پھر وہ شخص امام بنے جسے سنت نبوی کا زیادہ علم ہو۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1532(673)) نیز حضرت ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب نماز کا وقت ہوجائے تو تم میں سے ایک اذان کہے اور امامت وہ شخص کرائے جسے قرآن زیادہ یاد ہو۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1532(673)) ان احادیث کا تقاضا ہے کہ امامت کا منصب حافظ قرآن کو دینا چاہیے۔ جمہور اس قسم کی احادیث کو منسوخ قرار دیتے ہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے آخری وقت حضرت ابو بکر ؓ کو منصب امامت پر فائز فرمایا، لیکن ان احادیث کو منسوخ قرار دینے کی ضرورت نہیں، کیونکہ حضرت ابو بکر صديق ؓ حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ سنت کے سب سے بڑے عالم تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے انھی اوصافِ فاضلہ کی بنا پر منصب امامت ان کے حوالے فرمایا۔ حدیث مسلم میں أعلم بالسنة سے مراد وہ شخص ہے جو بقدر ضرورت قرآن مجید صحیح طور پر پڑھنے کے ساتھ ساتھ نماز سے متعلقہ مسائل بہ نسبت دوسروں کے زیادہ جانتا ہو، چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے زیادہ علم، فہم، تقویٰ اور خوف وخشیت والے تھے۔ (رضي اللہ عنه)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
669
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
678
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
678
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
678
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب نبی ﷺ بیمار ہوئے اور بیماری نے شدت اختیار کی تو آپ نے فرمایا: ’’ابوبکر سے کہو، وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘ اس پر حضرت عائشہ ؓ گویا ہوئیں: وہ نرم دل آدمی ہیں، جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو نماز نہ پڑھا سکیں گے۔ آپ نے فرمایا: ’’ابوبکر سے کہو، وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ نے پہلے والی بات پھر کہہ دی۔ آپ ﷺ نے سہ باری فرمایا: ’’تم ابوبکر سے کہو، وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ تم عورتیں مجھے حضرت یوسف ؑ کے ساتھ والی عورتیں معلوم ہوتی ہو۔‘‘ پھر ایک آدمی حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آیا اور انہوں نے نبی ﷺ کی حیات مبارکہ ہی میں لوگوں کو نماز پڑھائی۔
حدیث حاشیہ:
(1) امامت کے سلسلے میں حضرت امام بخاری ؒ کا موقف یہ ہے کہ اس کے لیے اہل علم و فضل کا انتخاب کرنا چاہیے۔ دین سے بے بہرہ شخص اس منصب کے قطعاً لائق نہیں، خواہ بہترین قاری ہی کیوں نہ ہو کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بڑھ کر صاحب علم و فضل تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انھیں مصلائے امامت پر مقرر فرمایا، لہٰذا اس عظیم منصب کے شایان شان یہی ہے کہ اس آدمی کو یہ اعزاز بخشا جائے جو علم وفضل میں عظیم تر ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امام صاحب کا مقصود جمہور کے موقف کی تائید کرنا ہو کہ علمائے حضرات بہ نسبت قراء حضرات کے منصب امامت کے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں حضرت ابی بن کعب ؓ سب سے بڑے قاری تھے۔ جیسا کہ نص حدیث سے ثابت ہے، اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا انتخاب فرمایا کیونکہ وہ علم وفضل میں سب سے زیادہ فائق تھے۔ (حاشیة السندي:124/1) (2) ایک حدیث میں ہے کہ لوگوں کا امام ایسا ہونا چاہیے جو قرآن کا زیادہ حافظ ہو، اگر اس وصف میں سب برابر ہوں تو پھر وہ شخص امام بنے جسے سنت نبوی کا زیادہ علم ہو۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1532(673)) نیز حضرت ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب نماز کا وقت ہوجائے تو تم میں سے ایک اذان کہے اور امامت وہ شخص کرائے جسے قرآن زیادہ یاد ہو۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1532(673)) ان احادیث کا تقاضا ہے کہ امامت کا منصب حافظ قرآن کو دینا چاہیے۔ جمہور اس قسم کی احادیث کو منسوخ قرار دیتے ہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے آخری وقت حضرت ابو بکر ؓ کو منصب امامت پر فائز فرمایا، لیکن ان احادیث کو منسوخ قرار دینے کی ضرورت نہیں، کیونکہ حضرت ابو بکر صديق ؓ حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ سنت کے سب سے بڑے عالم تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے انھی اوصافِ فاضلہ کی بنا پر منصب امامت ان کے حوالے فرمایا۔ حدیث مسلم میں أعلم بالسنة سے مراد وہ شخص ہے جو بقدر ضرورت قرآن مجید صحیح طور پر پڑھنے کے ساتھ ساتھ نماز سے متعلقہ مسائل بہ نسبت دوسروں کے زیادہ جانتا ہو، چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے زیادہ علم، فہم، تقویٰ اور خوف وخشیت والے تھے۔ (رضي اللہ عنه)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حسین بن علی بن ولید نے زائدہ بن قدامہ سے بیان کیا، انہوں نے عبدالملک بن عمیر سے، کہا کہ مجھ سے ابوبردہ عامر نے بیان کیا، انہوں نے ابوموسیٰ اشعری ؓ سے، آپ نے فرمایا کہ آپ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ بیمار ہوئے اور جب بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ نے فرمایا کہ ابوبکر ؓ سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ اس پر حضرت عائشہ ؓ بولیں کہ وہ نرم دل ہیں جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو ان کے لئے نماز پڑھانا مشکل ہو گا۔ آپ نے پھر فرمایا کہ ابوبکر سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے پھر وہی بات کہی۔ آپ ﷺ نے پھر فرمایا کہ ابوبکر سے کہو کہ نماز پڑھائیں، تم لوگ صواحب یوسف (زلیخا) کی طرح (باتیں بناتی) ہو۔ آخر ابوبکر صدیق ؓ کے پاس آدمی بلانے آیا اور آپ نے لوگوں کو نبی کریم ﷺ کی زندگی میں ہی نماز پڑھائی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa (RA): "The Prophet (ﷺ) became sick and when his disease became aggravated, he said, "Tell Abu Bakr (RA) to lead the prayer." 'Aisha (RA) said, "He is a soft-hearted man and would not be able to lead the prayer in your place." The Prophet (ﷺ) said again, "Tell Abu Bakr (RA) to lead the people in prayer." She repeated the same reply but he said, "Tell Abu Bakr (RA) to lead the people in prayer. You are the companions of Joseph." So the messenger went to Abu Bakr (RA) (with that order) and he led the people in prayer in the lifetime of the Prophet (ﷺ).