باب: امامت کرانے کا سب سے زیادہ حقدار وہ ہے جو علم اور (عملی طور پر بھی) فضیلت والا ہو۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: The religious learned men are entitled to precedence in leading the Salat (prayer))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
690.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، جو نبی ﷺ کے پیروکار، خدمت گزار اور صحبت دار ہیں، انہوں نے فرمایا: حضرت ابوبکر صدق ؓ نبی ﷺ کے مرض وفات میں لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے۔ پیر کے دن جب لوگ نماز کے لیے صف بستہ تھے تو نبی ﷺ نے اپنے حجرے کا پردہ اٹھایا اور کھڑے ہو کر لوگوں کی طرف دیکھنے لگے۔ اس وقت آپ کا چہرہ (حسن و جمال اور رعنائی و زیبائی میں) گویا مصحف کا ورق تھا۔ پھر آپ بشاشت کے ساتھ مسکرائے تو ہم لوگوں کو انتہائی خوشی ہوئی، اندیشہ تھا کہ ہم نبی ﷺ کو دیکھتے دیکھتے نماز سے غافل ہو جائیں۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ الٹے پاؤں لوٹنے لگے تاکہ لوگوں کی صف میں شامل ہو جائیں۔ وہ سمجھے کہ نبی ﷺ نماز کے لیے تشریف لا رہے ہیں لیکن آپ نے ہماری طرف اشارہ کیا کہ اپنی نماز پوری کر لو۔ پھر آپ نے پردہ ڈال دیا اور اسی دن آپ نے وفات پائی۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات تک سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نماز پڑھانے کے لیے آپ کے جانشین رہے۔ یہی امام بخاری ؒ کا مقصود ہے کہ اہل علم وفضل ہی امامت کے زیادہ حق دار ہیں۔ واضح رہے کہ شیعہ حضرات کا یہ پرو پیگنڈا غلط ہے کہ آخری وقت رسول اللہ ﷺ نے خود برآمد ہوکر ابوبکر صدیق ؓ کو امامت سے معزول کردیا تھا۔ (شرح الکرماني:5/63) اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے رخ زیبا کو ورق قرآن سے تشبیہ دی گئی ہے۔ یہ بڑی عجیب اور پاکیزہ تشبیہ ہے کیونکہ ورق قرآن پر طلائی کا کام ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے چہرۂ تاباں پر زردئ مرض تھی، اس بنا پر تابانی اور رنگ مرض میں طلا سے اور تقدس اور پاکیزگی میں قرآن پاک سے تشبیہ دی گئی ہے۔ (2) پیر کو نماز صبح کے وقت وہ پردہ اٹھایا جو بیت عائشہ ؓ اور مسجد طیبہ کے درمیان پڑتا تھا۔ اس وقت نماز ہورہی تھی۔ یہ نماز سیدنا ابو بکر صدیق ؓ ہی نے مکمل فرمائی۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4448) حافظ ابن حجر ؒ نے مغازی موسیٰ بن عقبہ ؓ کے حوالے سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رکعت سیدنا ابوبکر ؓ کے پیچھے ادا کی۔ (فتح الباري:218/2) ممکن ہے کہ پردے کہ پاس بیٹھ کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی اقتدا میں وہ رکعت ادا کی ہو۔ اسی دن جب سورج طلوع ہوا تو حضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکر ؓ آ گئے، ان کے ہاتھ میں تازہ مسواک تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے مسواک پر نظر ڈالی تو صدیقۂ کائنات نے ان سے لے کر اپنے دانتوں سے مسواک کو نرم کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے اسی طرح استعمال فرمایا۔ پھر اپنے ہاتھ کو بلند کیا اور فرمایا: ’’اے اللہ! مجھے بلند وبالا رفاقت درکار ہے۔‘‘ اسی وقت ہاتھ لٹک گیا اور آپ نے اپنی جان، جان آفریں کے حوالے کردی۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4449)إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
671
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
680
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
680
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
680
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، جو نبی ﷺ کے پیروکار، خدمت گزار اور صحبت دار ہیں، انہوں نے فرمایا: حضرت ابوبکر صدق ؓ نبی ﷺ کے مرض وفات میں لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے۔ پیر کے دن جب لوگ نماز کے لیے صف بستہ تھے تو نبی ﷺ نے اپنے حجرے کا پردہ اٹھایا اور کھڑے ہو کر لوگوں کی طرف دیکھنے لگے۔ اس وقت آپ کا چہرہ (حسن و جمال اور رعنائی و زیبائی میں) گویا مصحف کا ورق تھا۔ پھر آپ بشاشت کے ساتھ مسکرائے تو ہم لوگوں کو انتہائی خوشی ہوئی، اندیشہ تھا کہ ہم نبی ﷺ کو دیکھتے دیکھتے نماز سے غافل ہو جائیں۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ الٹے پاؤں لوٹنے لگے تاکہ لوگوں کی صف میں شامل ہو جائیں۔ وہ سمجھے کہ نبی ﷺ نماز کے لیے تشریف لا رہے ہیں لیکن آپ نے ہماری طرف اشارہ کیا کہ اپنی نماز پوری کر لو۔ پھر آپ نے پردہ ڈال دیا اور اسی دن آپ نے وفات پائی۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات تک سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نماز پڑھانے کے لیے آپ کے جانشین رہے۔ یہی امام بخاری ؒ کا مقصود ہے کہ اہل علم وفضل ہی امامت کے زیادہ حق دار ہیں۔ واضح رہے کہ شیعہ حضرات کا یہ پرو پیگنڈا غلط ہے کہ آخری وقت رسول اللہ ﷺ نے خود برآمد ہوکر ابوبکر صدیق ؓ کو امامت سے معزول کردیا تھا۔ (شرح الکرماني:5/63) اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے رخ زیبا کو ورق قرآن سے تشبیہ دی گئی ہے۔ یہ بڑی عجیب اور پاکیزہ تشبیہ ہے کیونکہ ورق قرآن پر طلائی کا کام ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے چہرۂ تاباں پر زردئ مرض تھی، اس بنا پر تابانی اور رنگ مرض میں طلا سے اور تقدس اور پاکیزگی میں قرآن پاک سے تشبیہ دی گئی ہے۔ (2) پیر کو نماز صبح کے وقت وہ پردہ اٹھایا جو بیت عائشہ ؓ اور مسجد طیبہ کے درمیان پڑتا تھا۔ اس وقت نماز ہورہی تھی۔ یہ نماز سیدنا ابو بکر صدیق ؓ ہی نے مکمل فرمائی۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4448) حافظ ابن حجر ؒ نے مغازی موسیٰ بن عقبہ ؓ کے حوالے سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رکعت سیدنا ابوبکر ؓ کے پیچھے ادا کی۔ (فتح الباري:218/2) ممکن ہے کہ پردے کہ پاس بیٹھ کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی اقتدا میں وہ رکعت ادا کی ہو۔ اسی دن جب سورج طلوع ہوا تو حضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکر ؓ آ گئے، ان کے ہاتھ میں تازہ مسواک تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے مسواک پر نظر ڈالی تو صدیقۂ کائنات نے ان سے لے کر اپنے دانتوں سے مسواک کو نرم کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے اسی طرح استعمال فرمایا۔ پھر اپنے ہاتھ کو بلند کیا اور فرمایا: ’’اے اللہ! مجھے بلند وبالا رفاقت درکار ہے۔‘‘ اسی وقت ہاتھ لٹک گیا اور آپ نے اپنی جان، جان آفریں کے حوالے کردی۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4449)إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب بن ابی حمزہ نے زہری سے خبر دی، کہا کہ مجھے انس بن مالک انصاری ؓ نے خبر دی .... آپ نبی کریم ﷺ کی پیروی کرنے والے، آپ کے خادم اور صحابی تھے.... کہ آنحضور ﷺ کے مرض الموت میں ابوبکر صدیق ؓ نماز پڑھاتے تھے۔ پیر کے دن جب لوگ نماز میں صف باندھے کھڑے ہوئے تھے تو آنحضور ﷺ حجرہ کا پردہ ہٹائے کھڑے ہوئے، ہماری طرف دیکھ رہے تھے۔ آپ ﷺ کا چہرہ مبارک (حسن و جمال اور صفائی میں) گویا مصحف کا ورق تھا۔ آپ مسکرا کر ہنسنے لگے۔ ہمیں اتنی خوشی ہوئی کہ خطرہ ہو گیا کہ کہیں ہم سب آپ کو دیکھنے ہی میں نہ مشغول ہو جائیں اور نماز توڑ دیں۔ حضرت ابوبکر ؓ الٹے پاؤں پیچھے ہٹ کر صف کے ساتھ آملنا چاہتے تھے۔ انہوں نے سمجھا کہ نبی ﷺ نماز کے لیے تشریف لارہے ہیں، لیکن آپ نے ہمیں اشارہ کیا کہ نماز پوری کرلو۔ پھر آپ نے پردہ ڈال دیا۔ پس آنحضرت ﷺ کی وفات اسی دن ہو گئی۔ (إنا للہ و إنا إلیه راجعون)
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Az-Zuhn (RA): Anas bin Malik (RA) Al-Ansari, told me, " Abu Bakr (RA) used to lead the people in prayer during the fatal illness of the Prophet (ﷺ) till it was Monday. When the people aligned (in rows) for the prayer the Prophet (ﷺ) lifted the curtain of his house and started looking at us and was standing at that time. His face was (glittering) like a page of the Qur'an and he smiled cheerfully. We were about to be put to trial for the pleasure of seeing the Prophet, Abu Bakr (RA) retreated to join the row as he thought that the Prophet (ﷺ) would lead the prayer. The Prophet (ﷺ) beckoned us to complete the prayer and he let the curtain fall. On the same day he died."