تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے شدید وعید پر مشتمل سابقہ عنوان کے بعد یہ عنوان اس لیے ذکر نہیں کیا کہ کسی ذمی کے بدلے میں مسلمان کو قتل کر دیا جائے جب مسلمان اسے دانستہ قتل کر دے بلکہ اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ جب کوئی مسلمان کافر کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا تو اس کا یہ مفہوم نہیں کہ مسلمان ہر کافر کو موت کے گھاٹ اتار دے بلکہ حق کے بغیر ایک ذمی یا معاہد کو قتل کرنا بھی حرام ہے۔ (فتح الباري:325/12)
(2) مسلمان کو ذمی کے بدلے میں قتل کرنے کے بارے میں اختلاف ہے۔ جمہور اہل علم کہتے ہیں کہ ذمی بھی کافر ہے، اس لیے مسلمان کو اس کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا، البتہ اہل کوفہ کہتے ہیں کہ ذمی کے بدلے میں مسلمان کو قتل کیا جائے گا۔ انھوں نے اس سلسلے میں ایک روایت کا سہارا لیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک معاہد کے بدلے میں مسلمان کو قتل کیا اور فرمایا: ’’میں اہل ذمہ کے ذمہ کو پورا کرنے کا زیادہ حق دار ہوں۔‘‘ (سنن الدار قطنی:135/3) اس حدیث کے متعلق امام دار قطنی رحمہ اللہ نے سخت جرح کی ہے کہ اسے ابراہیم بن ابی یحییٰ بیان کرتا ہے جو متروک الحدیث ہے، نیز اسے ابن بیلمانی نے بیان کیا ہے اور وہ انتہائی ضعیف ہے۔ اس کے باوجود وہ اس حدیث کو مرسل بیان کرتا ہے۔ (سنن الدار قطنی:135/3) اگر اسے صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تو بھی یہ منسوخ ہے کیونکہ مومن کو کافر کے بدلے میں نہ قتل کرنے پر مشتمل حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر ارشاد فرمائی تھی۔ (فتح الباري:327/12) جمہور کے مبنی بر حقیقت موقف کے پیش نظر اہل کوفہ میں سے امام زفر نے اپنے موقف سے رجوع کر لیا تھا جیسا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس کی تفصیل بیان کی ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیهقي:31/8)