تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ حضرت سالم مولیٰ ابو حذیفہ ؓ جن اصحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی امامت کراتے تھے، ان میں حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت ابو سلمہ، حضرت زید بن حارثہ اور حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہم بھی ہوتے تھے۔ (صحیح البخاري، الأحکام، حدیث :7175) حضرت ابوبکر ؓ کا ان میں موجود ہونا محل نظر ہے، کیونکہ وہ تو رسول اللہ ﷺ کی رفاقت میں ہجرت کر کے مدینہ آئے تھے جبکہ روایت کے حوالے سے یہ واقعہ ہجرت سے پہلے کا ہے۔ اس کا امام بیہقی نے یہ جواب دیا ہے کہ حضرت سالم ؓ ہجرت کے بعد ان کی جماعت کرواتے تھے ممکن ہے کہ اس کے بعد حضرت ابوبکر ؓ بھی ان میں موجود ہوں۔ والله أعلم۔ ترجمۃ الباب کے ساتھ اس کی مناسبت یہ ہے کہ تمام بڑے بڑے قریشی صحابۂ كرام رضی اللہ عنہم کو امامت کے لیے اپنے آپ پر مقدم کیا، اس لیے غلام کی امامت درست ہے، نیز اس سے عنوان کا دوسراحصہ بھی ثابت ہوگیا کہ غلام کو بلاوجہ امامت سے نہ روکا جائے۔ (فتح الباري:241/2) واضح رہے کہ حضرت سالم ؓ دراصل ایک انصاری عورت کے غلام تھے، اس نے آپ کو آزاد کردیا تھا لیکن وہ آزادی سے قبل ہی لوگوں کی امامت کراتے تھے۔ آزادی کے بعد حضرت ابو حذیفہ ؓ نے انھیں اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا۔ اسی لیے آپ کو سالم مولی ابو حذیفہ کہا جاتا تھا۔ غلام کی امامت جمہور کے نزدیک درست ہے۔ صرف امام مالک سے اس موقف کی مخالفت منقول ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ غلام، آزاد لوگوں کا امام نہ بنے۔ ہاں، اگر وہ عالم اورقاری ہو اور مقتدی ایسے نہ ہوں تو ایسے حالات میں اسے امام بنایا جاسکتا ہے، لیکن جمعہ کے لیے پھر بھی امام بنانا صحیح نہیں، کیونکہ جمعہ غلام پر فرض نہیں ہے۔ علامہ اشہب مالکی ؒ نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جمعہ کے لیے بھی غلام کو امام بنایا جاسکتا ہے، کیونکہ جب وہ شریک جمعہ ہوگا تو اس سے فرض ہی ادا ہوگا۔ (فتح الباري:239/2)
(2) بعض حضرات نے نابالغ کی امامت کو ناجائز کہا ہے۔ وہ ایک حدیث پیش کرتے ہیں جسے مصنف عبدالرزاق کے حوالے سے حافظ ابن حجر ؒ نے بیان کیا ہے کہ بچہ بالغ ہونے تک امامت نہ کرائے، لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔ امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح میں ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ عمرو بن سلمہ ؓ اپنی قوم کی امامت کراتے تھے جبکہ ان کی عمر سات سال تھی۔(صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4302) حضرت عمرو بن سلمہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے والد کو کہا کہ جب نماز کا وقت ہوجائے تو تم میں سے کوئی ایک اذان کہے اور امامت ایسا شخص کرائے جو قرآن کا زیادہ حافظ ہو، عالم ہو۔ جب میری قوم نے دیکھا کہ میرے علاوہ کوئی دوسرا قرآن کا عالم وحافظ نہیں تو انھوں نے مجھے جماعت کے لیے آگے کردیا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4302) اس واضح حدیث کے باوجود فقہاء نے اس مسئلے میں اختلاف کیا ہے۔ امام بخاری ؒ نے ان کی تردید کرتے ہوئے بچے کی امامت کو صحیح احادیث سے ثابت کیا ہے۔