تشریح:
(1) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث اس وقت بیان کی جب انھوں نے نہروان میں خوارج کو قتل کیا اور ان میں وہ علامتیں دیکھیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق بیان فرمائی تھیں۔ آپ باربار فرماتے: اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ہے۔ (فتح الباري:358/12) ایک رویت میں ہے کہ اگر میرے لشکر کو معلوم ہوجائے کہ ان لوگوں کو قتل کرنے مین کتنا ثواب ہے تو آئندہ عمل کرنا ہی چھوڑ دیں کہ ہمیں اخروی نجات کے لیے ان کا قتل ہی کافی ہے۔ (سنن أبي داود، السنة، حدیث:4768) عبیدہ بن عمرو نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: واقعی آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ باتیں سنی ہیں؟ تو انھوں نے رب کعبہ کی قسم اٹھا کر فرمایا: ہاں، میں نے انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس لیے قسم اٹھا کر یہ بات بیان کرتے تھے کہ ایک تو اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزے کا اظہار تھا، دوسرے یہ واقعہ ان کے برحق ہونے کی دلیل تھی، تیسرے لوگوں کو اعتماد میں لینا مقصود تھا، نیز آپ فرماتے تھے کہ ان لوگوں سے جنگ کرنا اور انھیں صفحۂ ہستی سے مٹانا ہر مسلمان کا حق ہے۔
(2) ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ حروریہ، یعنی خوارج پہلے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے لیکن انھوں نے جب کہا کہ فیصلہ کرنا تو اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے، پھر وہ آپ سے الگ ہوگئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ لوگ بات تو صحیح کہتے ہیں لیکن اس غلط مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کی علامتیں بیان کی ہیں، میں ان کی روشنی میں انھیں خوب پہچانتا ہوں۔ یہ لوگ زبان سے حق بات کہتے ہیں لیکن حق ان کے حلق سے نہیں اترتا، اس بنا پر یہ لوگ بدترین مخلوق ہیں۔ (صحیح مسلم، الزکاة، حدیث:2468(1066)، وفتح الباری: 12/360)
(3) امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ خوارج اور ملحدین پر حجت قائم کرنے کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انھیں قتل کیا، اسی طرح آئندہ بھی اگر ایسے لوگ پیدا ہوں تو انھیں ابتدا ہی میں قتل نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان پر پہلے حجت قائم کی جائے، حق واضح کیا جائے اور ان کے شبہات دور کیے جائیں۔ جب وہ حق قبول کرنے سے انکار کر دیں تو ایسے لوگوں کو قتل کرنا درست ہے کیونکہ ان کا وجود دین حق کی نشر واشاعت کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ واللہ أعلم