قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ اسْتِتَابَةِ المُرْتَدِّينَ وَالمُعَانِدِينَ وَقِتَالِهِمْ (بَابُ قَتْلِ الخَوَارِجِ وَالمُلْحِدِينَ بَعْدَ إِقَامَةِ الحُجَّةِ عَلَيْهِمْ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ إِذْ هَدَاهُمْ حَتَّى يُبَيِّنَ لَهُمْ مَا يَتَّقُونَ} [التوبة: 115] وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ، يَرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ اللَّهِ، وَقَالَ: «إِنَّهُمُ انْطَلَقُوا إِلَى آيَاتٍ نَزَلَتْ فِي الكُفَّارِ، فَجَعَلُوهَا عَلَى المُؤْمِنِينَ»

6931. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ قَالَ سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ قَالَ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ وَعَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّهُمَا أَتَيَا أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ فَسَأَلَاهُ عَنْ الْحَرُورِيَّةِ أَسَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا أَدْرِي مَا الْحَرُورِيَّةُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَخْرُجُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ وَلَمْ يَقُلْ مِنْهَا قَوْمٌ تَحْقِرُونَ صَلَاتَكُمْ مَعَ صَلَاتِهِمْ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حُلُوقَهُمْ أَوْ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنْ الدِّينِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنْ الرَّمِيَّةِ فَيَنْظُرُ الرَّامِي إِلَى سَهْمِهِ إِلَى نَصْلِهِ إِلَى رِصَافِهِ فَيَتَمَارَى فِي الْفُوقَةِ هَلْ عَلِقَ بِهَا مِنْ الدَّمِ شَيْءٌ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

‏‏‏‏ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرتا کہ کسی قوم کو ہدایت کرنے کے بعد (یعنی ایمان کی توفیق دینے کے بعد) ان سے مواخذہ کرے جب تک ان سے بیان نہ کرے کہ فلاں فلاں کاموں سے بچے رہو۔“ اور عبداللہ بن عمر ؓ(اس کو طبری نے وصل کیا) خارجی لوگوں کو بدترین خلق اللہ سمجھتے تھے، کہتے تھے انہوں نے کیا کیا جو آیتیں کافروں کے باب میں اتری تھیں ان کو مسلمانوں پر چیپ دیا۔تشریح : پھر بیان کرنے کے بعد اگر وہ اس کام کے مرتکب ہوں تو بیشک ان سے مواخدہ ہوگا۔ اس آیت کو لاکر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ ثابت کیا کہ خارجی یا رافضی وغیرہ لوگوں سے اگر حاکم اسلام لڑائی کرے تو پہلے ان کا شبہ رفع کردے ان کو سمجھادے۔ اگر اس پر بھی نہ مانیں تو ان سے جنگ کرے۔ آیت سے یہ بھی نکلا کہ شریعت میں جس بات سے منع نہیں کیاگیا اگر کوئی اس کو کرے تو وہ گمراہ نہیں کہا جائے گا نہ اس سے مواخذہ ہوگا۔ امام مسلم نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ خارجی تمام خلق اور تمام مخلوقات میں بدتر ہیں اور بزار نے مرفوعاً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکالا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خارجیوں کا ذکر کیا فرمایا وہ میری امت کے برے لوگ ہیں ان کو میری امت کے اچھے لوگ قتل کریں گے۔ خارجی ایک مشہور فرقہ ہے جس کی ابتداءحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اخیر خلافت سے ہوئی۔ یہ لوگ ظاہر میں بڑے عابد زاہد اور قاری قرآن تھے مگر دل میں ذرا بھی قرآن کا نور نہ تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو شروع شروع میں یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے جب جنگ صفین ہوچکی اور تحکیم کی رائے قرار پائی اس وقت یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی الگ ہوگے۔ ان کو برا کہنے لگے کہ انہوں نے تحکیم کیسے قبول کی۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان الحکم الااﷲ ان کا سردار عبداللہ بن کوا تھا۔ حضرت علی ؓنے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو ان کے سمجھانے کے لیے بھیجا اور خود بھی سمجھایا مگر انہوں نے نہ مانا۔ آخر حضرت علی ؓنے ان کو نہروان میں قتل کیا چند لوگ بچ کر بھاگ نکلے۔ انہیں میں کا ایک عبدالرحمن بن ملجم ملعون تھا جس نے حضرت علی ؓکو شہید کیا۔ یہ کمبخت خوارج حضرت علی، حضرت عثمان، حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کی تکفیر کرتے ہیں اورکبیرہ گناہ کرنے والے کی نسبت کہتے ہیں کہ وہ کافر ہے ہمیشہ دوزخ میں رہے گا اور حیض کی حالت میں عورت پر نماز کی قضا کرنا واجب جانتے ہیں۔ غرض یہ ساری گمراہی ان کی اسی وجہ سے ہوئی کہ قرآن کی تفسیر اپنے دل سے کرنے لگے اور صحابہ اور سلف صالحین کی تفسیر کا خیال نہ رکھا جور آیتیں کافروں کے باب میں تھیں وہ مومنوں کے شان میں کردیں۔

6931.

حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن اور عطاء بن یسار سے روایت ہے وہ دونوں حضرت ابو سعید خدری ؓ کے پاس آئے اور ان سے حرویہ (خوارج) کے متعلق سوال کیا کہ تم نے ان سے متعلق نبی ﷺ سے کچھ سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا: حروریہ کے متعلق تو میں کچھ نہیں جانتا کہ وہ کون ہیں۔ البتہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اس امت میں ایک قوم ظاہر ہوگی۔ یہ نہیں فرمایا کہ اس امت سے ظاہر ہوگی۔ تم اپنی نماز كو ان نماز کے مقابلے میں بہت حقیر خیال کرو گے۔ وہ قرآن کی تلاوت بھی خوب کریں گے لیکن قرآن ان کے حلق یا گلے سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے تیر انداز اپنے تیر کو دیکھتا ہے اس کے پھل کو دیکھتا ہے اس کے پروں کو دیکھتا ہے، اس کی جڑ کو دیکھتا ہے، اس کو شک ہوتا ہے کہ شاید اس پر کچھ خون لگا ہو؟ (مگر وہ بھی صاف ہوتا ہے)۔