تشریح:
1۔ایک روایت میں ہے کہ جب اس کو اللہ تعالیٰ نے کفر سے نجات دے دی ہے تو کفر کو دوبارہ اختیار کرنے کی نسبت آگ میں چھلانگ لگانے کو زیادہ پسندکرے۔
(صحیح البخاري، الأدب حدیث 6041) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پیش کردہ حدیث میں اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جس کا ہم نے اوپر حوالہ دیا ہے یعنی وہ بندہ مومن آگ میں کود پڑنے کى تکلیف کو زیادہ ترجیح دے گا لیکن کفر کو اختیار نہیں کرے گا۔
2۔اگرچہ جبر و اکراہ کے وقت کفریہ کام یا کفریہ بات کرنے کی رخصت ہے لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے کردار سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے رخصت پر عمل کرنے کے بجائے عزیمت کو اختیار کیا اور کفار کے مصائب وآلام کو خندہ پیشانی سے قبول کیا لیکن کلمہ کفر کہہ کر اہل کفر کا کلیجہ ٹھنڈا نہیں کیا۔
3۔قرآن کریم میں اصحاب الاخدود اورحدیث مبارکہ میں غلام کا واقعہ بیان ہوا ہے، انھوں نے بھی اسی قسم کی مستقل مزاجی کا مظاہرہ کیا تھا۔ ان حضرات نے ہمارے لیے درج ذیل نمونہ چھوڑا ہے: ’’جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے،پھر اس پر ڈٹ گئے ،ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ تم ڈرو اور نہ غمگین ہی ہواور اس جنت کی خوشی مناؤ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست ہیں اور آخرت میں بھی۔وہاں تمھیں وہی کچھ ملے گا جو تمہارا جی چاہے گا اور جو کچھ مانگو گے تمہارا ہوگا۔یہ بے حد بخشنے والے نہایت مہربان کی طرف سے تمہاری مہمانی ہوگی۔‘‘ (حٰم السجدة: 30/41، 32)