تشریح:
1۔ایک حدیث میں ہے کہ نماز شروع کرتے وقت جب اللہ اکبر کہا جاتا ہے تو خارجی چیزیں حرام ہو جاتی ہیں، پھر سلام پھیرنے سے وہ حلال ہوتی ہیں۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 61) اس کا مطلب یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ اور سلام پھیرنا دونوں نماز کے رکن ہیں، جنھیں حدیث بالا کے مطابق باوضو ادا ہونا چاہیے۔ لیکن کچھ حضرات کا خیال ہے کہ آخری تشہد میں اگر کوئی شخص تشہد مکمل کرنے کے بعد جان بوجھ کر کوئی ایسا فعل سرانجام دے جو نماز کے منافی ہو اور سلام نہ پھیرے تو نماز مکمل ہے جیسا کہ شرح وقایہ میں ہے کہ سلام کے وقت جان بوجھ کر بے وضو ہو جائے تو نماز فاسد نہیں ہوگی۔ (شرح وقایة، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة: 510/1)
2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان حضرات کی تردید کی ہے کیونکہ یہ حضرات نماز میں بے وضو ہونے کے باوجود نماز کی صحت کے لیے حیلہ کرتے ہیں، حالانکہ آخری تشہد میں بے وضو ہونے والا بھی بے وضو ہی ہے، لہذا اس کی نماز صحیح نہ ہوگی کیونکہ نماز سے باہر ہونا بھی نماز کا رکن ہے جو سلام پھیرنے سے پورا ہوتا ہے، اگر اس آخری رکن کو بے وضو ہو کرادا کیا گیا تو نماز نہیں ہوگی۔
3۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ سلام بھی عبادت کی جنس میں سے ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کے بندوں کے لیے دعا پر مشتمل ہوتا ہے، لہذا کسی صورت "حدث فاحش" ذکر حسن کے قائم مقام نہیں ہو سکتا۔ (فتح الباري: 412/12)