تشریح:
1۔صورت مسئلہ اس طرح ہے کہ ایک شخص کے پاس خوبصورت لونڈی ہے جو کسی دوسرے شخص کو پسند آ گئی۔ وہ شخص مالک سے فروخت کرنے کا مطالبہ کرتا ہے لیکن مالک اس پر آمادہ نہ ہوا تو دوسرے شخص نے زبردستی چھین کر عدالت میں ثابت کر دیا کہ وہ مر گئی ہے۔ عدالت نے اس کی قیمت کا فیصلہ کر دیا اور مالک نے وہ قیمت وصول کر لی۔ اب اس لونڈی کے متعلق دو مؤقف ہیں: جمہور اہل علم کہتے ہیں کہ مذکورہ صورت غدر کی ایک قسم ہے کیونکہ غاصب کا یہ دعویٰ کہ وہ مر گئی، اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے حق میں ایک طرح کی خیانت اور دغا بازی ہے، لہذا اگر وہ زندہ مل گئی تو اصل مالک وصول کی ہوئی قیمت واپس کر کے وہ لونڈی لینے کا مجاز ہوگا اور وصول کی ہوئی قیمت اس لونڈی کی ثمن اور عوض بیع نہیں بنے گی کیونکہ ان دونوں میں باقاعدہ عقد بیع جاری ہی نہیں ہوا بلکہ مالک نے لونڈی کی قیمت تو محض اس کی ہلاکت کے گمان پر لی تھی، جب یہ سبب زائل ہو گیا تو اصل کی طرف رجوع واجب ہو گیا کہ وہ لونڈی اصل مالک ہی کی ہے۔ دوسراموقف "بعض لوگوں" کا ہے کہ جب غاصب نے اس کی قیمت ادا کر دی اور مالک نے اسے وصول کر لیا تو وہ لونڈی غاصب کی ملکیت میں آجائے گی اور اس کے لیے اسے اپنے کام میں لانا جائز ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ فعل جائز نہیں تاہم اگر کسی نے حماقت میں آکر کر لیا ہے تو اسے نافذ کر دیا جائے گا۔
2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان اور پیش کردہ حدیث میں ایسے لوگوں کا محاسبہ کیا ہے اور ان کی حیلہ سازی سے پردہ اٹھایا ہے، پھر ان کی تقسیم جواز حیلہ اور نفاذ حیلہ کے تار پود بکھیرے ہیں کہ یہ تقسیم باطل اور دھوکا دہی کی ایک قسم ہے، چنانچہ پیش کردہ حدیث ’’دوسروں کے مال تم پر حرام ہیں‘‘ جس طرح جواز حیلہ کی نفی کرتی ہے، نفاذحیلہ کی بھی نفی کرتی ہے۔ جب باطل طریقے سے کسی دوسرے کا مال کھانا حرام ہے تو اس کا نفاذ کیونکر صحیح ہو سکتا ہے۔ اسی طرح اس میں باہمی رضا مندی کی شرط بھی مفقود ہے کیونکہ مالک نے مشروط طور پر لونڈی کی قیمت وصول کی ہے لیکن جب وہ مری نہیں تورضا مندی کی شرط ہونے سے رضا مندی بھی ختم ہو گئی۔ اس حیلے سے تو فساق وفجار کے لیے فسق وفجور میں مبتلا رہنے کا راستہ ہموار کرنا ہے۔ ایک مسلمان کی شان نہیں کہ وہ ایسے حرکات کرے جس سے عیاش لوگوں کو فائدہ ہوا اور انھیں کسی قسم کا خطرہ نہ ہو۔واللہ المستعان۔