تشریح:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان میں حیلہ سازوں کی مکاری اورفریب کاری اور دھوکا دہی سے پردہ اٹھایا ہے کہ ان کے نزدیک ایک معصوم کنواری لڑکی کے متعلق جھوٹے گواہ پیش کر دینے کے بعد اگر کسی نے عدالت سے اپنے حق میں فیصلہ لے لیا تو وہ کنواری لڑکی اس کی بیوی بن جائے گی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی اس ’’حرام کاری‘‘ پر اس کا کوئی مواخذہ نہیں ہو گا، حالانکہ حدیث کی رو سے نکاح کے لیے لڑکی کی اجازت ضروری ہے اس کے علاوہ سرپرست کی رضا مندی اور اجازت کی حیثیت بھی تسلیم شدہ ہے۔لیکن حیلہ سازی کے ذریعے سے فریب کاری پر مبنی نکاح میں نہ سرپرست کی اجازت حاصل کی گئی اور نہ لڑکی ہی کی اجازت کو پیش نظر رکھا گیا، صرف دو جھوٹے گواہوں کی گواہی سے عدالت سے فیصلہ حاصل کر کے معصوم لڑکی کو بیوی بنا لیا گیا۔ شاید ان کے ہاں اس قسم کے ضمنی نکاح کے لیے سرپرست کی اجازت اور لڑکی کی رضامندی ضروری نہیں ہے۔ انھوں نے شمس الائمہ سرخسی کی المبسوط کے حوالے سے ایک روایت کا بھی کھوج لگایا ہے جس کی تفصیل یہ ہے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے کسی شخص نے دو جھوٹے گواہ پیش کر دیے کہ میرا فلاح عورت سے نکاح ہے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گواہوں کی گواہی سے اس کے نکاح کا فیصلہ دے دیا، عورت نے بغرض عفت عرض کی: امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ! میرا قطعاً اس آدمی سے نکاح نہیں ہے بلکہ یہ گواہ بالکل جھوٹے ہیں، لیکن اگر آپ کا یہی فیصلہ ہے تو میں آپ کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے یہ مطالبہ کرتی ہوں کہ اب آپ میرا عقد نکاح اس سے کر دیں تاکہ میں حقیقی طور پر اس کے لیے حلال ہو جاؤں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ان دونوں گواہوں کی بنا پر میں نے جو نکاح کا فیصلہ دیا ہے یہی نکاح کے قائم مقام ہے لہذا نئے نکاح کی ضرورت نہیں۔ مذکورہ روایت کے متعلق حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فیصلہ دیا ہے کہ یہ ثابت ہی نہیں۔ اگر ثابت بھی ہو تو موقوف ہے۔ (فتح الباري: 428/12) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی مرفوع حدیث کے مقابلے میں اس موقوف اثر کی کیا حیثیت ہے۔
2۔بہرحال حیلہ سازوں کے یہ تمام سہارے مکڑی کے جالے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ واللہ المستعان۔