باب: امام اس لیے مقرر کیا جاتا ہے کہ لوگ اس کی پیروی کریں۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: The Imam is appointed to be followed)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور رسول کریم ﷺ نے اپنے مرض وفات میں لوگوں کو بیٹھ کر نماز پڑھائی ( لوگ کھڑے ہوئے تھے ) اور عبداللہ بن مسعود ؓ کا قول ہے کہ جب کوئی امام سے پہلے سر اٹھا لے ( رکوع میں سجدے میں ) تو پھر وہ رکوع یا سجدے میں چلا جائے اور اتنی دیر ٹھہرے جتنی دیر سر اٹھائے رہا تھا پھر امام کی پیروی کرے۔ اور امام حسن بصری نے کہا کہ اگر کوئی شخص امام کے ساتھ دو رکعات پڑھے لیکن سجدہ نہ کر سکے، تو وہ آخری رکعت کے لیے دو سجدے کرے۔ پھر پہلی رکعت سجدہ سمیت دہرائے اور جو شخص سجدہ کئے بغیر بھول کر کھڑا ہو گیا تو وہ سجدے میں چلا جائے۔
697.
حضرت عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: آپ مجھے رسول اللہ ﷺ کے مرض وفات کے متعلق کچھ بتانا پسند فرمائیں گی؟ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: کیوں نہیں، سنیے جب نبی ﷺ بیمار تھے تو آپ نے دریافت فرمایا: ’’لوگ نماز پڑھ چکے ہیں؟‘‘ ہم نے عرض کیا: نہیں، یا رسول اللہ! بلکہ وہ آپ کے منتظر ہیں۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: ’’میرے لیے ایک لگن میں پانی بھر دو۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: ہم نے ایسا ہی کیا، چنانچہ آپ نے غسل فرمایا: پھر اٹھنے لگے تو بےہوش ہو گئے۔ جب ہوش آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا لوگ نماز پڑھ چکے ہیں؟‘‘ ہم نے عرض کیا: نہیں، یا رسول اللہ! وہ تو آپ کے منتظر ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’میرے لیے ٹب میں پانی رکھ دو۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ آپ بیٹھ گئے اور غسل فرمایا۔ پھر جب آپ نے کھڑے ہونے کا ارادہ کیا تو بےہوش ہو گئے۔ اس کے بعد ہوش آیا تو آپ نے فرمایا:’’کیا لوگ نماز پڑھ چکے ہیں؟‘‘ ہم نے کہا: نہیں، یا رسول اللہ! وہ آپ کے منتظر ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’میرے لیے ٹب میں پانی رکھ دو۔‘‘ (ہم نے پانی رکھ دیا) تو آپ بیٹھ گئے اور غسل فرمایا۔ پھر جب آپ اٹھنے لگے تو بےہوش ہو گئے۔ بعد ازاں ہوش آیا تو آپ نے پوچھا: ’’کیا لوگ نماز پڑھ چکے ہیں؟‘‘ ہم نے کہا: نہیں، یا رسول اللہ! وہ آپ کے منتظر ہیں۔ لوگ عشاء کی نماز کے لیے مسجد میں بیٹھے رسول اللہ ﷺ کا انتظار کر رہے تھے۔ انجام کار نبی ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کے پاس ایک آدمی بھیجا اور حکم دیا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ آپ ﷺ کا فرستادہ ان کے پاس آیا اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ آپ کو حکم دے رہے ہیں کہ آپ لوگوں کو نماز پڑھائں۔ حضرت ابوبکر ؓ چونکہ انتہائی نرم دل انسان تھے، اس لیے انہوں نے حضرت عمر ؓ سے کہا: اے عمر! تم لوگوں کو نماز پڑھا دو۔ حضرت عمر ؓ نے ان سے کہا: آپ اس منصب کے زیادہ حق دار ہیں، چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ نے ان دنوں لوگوں کو نمازیں پڑھائیں۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے اپنے مرض میں کچھ افاقہ محسوس فرمایا تو آپ دو آدمیوں کے درمیان سہارا لے کر نماز ظہر کے لیے برآمد ہوئے۔ ان میں سے ایک حضرت عباس ؓ تھے۔ اس وقت حضرت ابوبکر ؓ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے۔ جب آپ کو حضرت ابوبکر ؓ نے دیکھا تو پیچھے ہٹنے لگے مگر نبی ﷺ نے اشارہ فرمایا کہ پیچھے نہ ہٹیں۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’مجھے ان کے پہلو میں بٹھا دو۔‘‘ چنانچہ ان دونوں نے آپ کو ابوبکر ؓ کے پہلو میں بٹھا دیا۔ اس وقت حضرت ابوبکر ؓ تو کھڑے ہو کر نبی ﷺ کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے جبکہ لوگ حضرت ابوبکر ؓ کی اقتدا میں نماز ادا کر رہے تھے اور نبی ﷺ بیٹھے ہوئے تھے۔ عبیداللہ نے کہا: پھر میں عبداللہ بن عباس ؓ کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ میں وہ حدیث تمہارے گوش گزار کروں جو مجھ سے حضرت عائشہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے مرض وفات کے متعلق بیان کی ہے؟ انہوں نے فرمایا: پیش کرو۔ میں نے ان کے سامنے حضرت عائشہ ؓ کی بیان کردہ حدیث پیش کی تو حضرت ابن عباس ؓ نے اس میں سے کسی بات کا انکار نہ کیا صرف اتنا کہا کہ حضرت عائشہ ؓ نے تمہیں اس شخص کا نام بھی بتایا جو حضرت عباس ؓ کے ہمراہ تھا؟ میں نے کہا: نہیں۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا: وہ حضرت علی ؓ تھے۔
تشریح:
(1) یہ حدیث اس اجمال کی تفصیل ہے جسے امام بخاری ؒ نے ترجمۃ الباب کے تحت پہلے ذکر کیا ہے۔ اس حدیث میں ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ رسول اللہ ﷺ کی پیروی میں نماز پڑھنے لگے۔یہی ٹکڑا امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کے مطابق ہے، یعنی امام اس لیے مقرر کیا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ (عمدة القاري:300/4) (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام راتب جب بیمار ہوجائے اور جماعت نہ کراسکتا ہوتو اسے چاہیے کہ کسی کو اپنا نائب مقرر کردے، بیٹھ کر نماز پڑھانے سے یہ بہتر ہے, کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کو نماز پڑھانے کے لیے اپنا نائب مقرر فرمایا اور انھیں بیٹھ کر نماز نہیں پڑھائی۔ رسول اللہ ﷺ نے بیٹھ کر صرف ایک دفعہ مقتدی صحابہ کو نماز پڑھائی تھی۔ (3) اس سے یہ بھی معلوم کہ معذور امام بیٹھ کر نماز پڑھا سکتا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا بیٹھ کر امامت کے فرائض سر انجام دینا آپ کا خاصہ ہے، کیونکہ آپ نے فرمایا کہ میرے بعد کوئی آدمی بیٹھ کر نماز نہ پڑھائے۔ یہ موقف صحیح نہیں کیونکہ پیش کردہ حدیث مرسل ہے جو ائمہ حدیث کے نزدیک قابل حجت نہیں ہوتی۔ (فتح الباري:227/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
678
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
687
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
687
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
687
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
امام کے ساتھ نماز پڑھتے وقت چار صورتیں ممکن ہیں:٭متابعت: مقتدی نماز کے اعمال وافعال کو امام کی پیروی میں ادا کرے۔٭موافقت:مقتدی نماز کے اعمال وافعال کو امام کے ساتھ ساتھ ادا کرے۔٭مسابقت: مقتدی نماز کے اعمال وافعال کو امام سے پہلے ادا کرے۔٭مخالفت: مقتدی نماز کے اعمال وافعال کو امام کے بعد ادا کرے۔شریعت نے امام کی متابعت کا حکم دیا ہے۔مسابقت اور مخالفت دونوں منع ہیں۔موافقت آمین اور سمع الله لمن حمده کہنے میں ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے انھی صورتوں کو بیان فرمایا ہے۔مذکورہ عنوا ن حدیث:688 کا ایک ٹکڑا ہے۔اس سے مقصود امامت کا تقاضا بیان کرنا ہے کہ مقتدی تمام احوال واعمال میں امام کی اقتدا کرے،نہ تو امام کے ساتھ ساتھ چلے اور نہ امام سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے اور نہ اس کی مخالفت ہی کا ارتکاب کرے،البتہ ایسی مخالفت کرسکتا ہے جس کے متعلق کوئی شرعی دلیل ہو، مثلا: امام کسی مجبوری کی بنا پر اگر بیٹھ کر جماعت کراتا ہے تو مقتدی حضرات اس کی مخالفت کرتے ہوئے کھڑے ہوکر نماز پڑھیں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع حدیث کا ٹکڑا پیش کرکے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مقتدی ان افعال میں امام کی مخالفت کرسکتے ہیں جس کے متعلق شرعی دلیل موجود ہے۔(فتح الباری:2/225)حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول مصنف ابن ابی شیبہ (2/454) میں بایں الفاظ موجود ہے: لوگو! رکوع وسجود میں اپنے اماموں سے جلدی نہ کیا کرو۔اگر تم میں سے کوئی اپنا سر اٹھالے جبکہ امام ابھی سجدے میں ہو تو وہ دوبارہ سجدے میں چلا جائے اور جتنی دیر امام سے مسابقت کی تھی اتنی دیر تک سجدے میں پڑا رہے۔مصنف عبدالرزاق(2/375) میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی ایسا منقول ہے۔(فتح الباری:2/226) شارح بخاری امام زین بن منیر فرماتے ہیں کہ جب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ہاں امام سے پہلے سر اٹھانے والے شخص کو اسی قدر حصہ دوبارہ ادا کرنے کا حکم ہے جس میں وہ امام کی اقتدا سے نکل گیا تھا،اس لیے بہتر ہے کہ وہ مکمل طور پر رکوع وسجود میں امام کی اقتدا کرے۔اسی سے اس اثر عنوان کے ساتھ مطابقت ظاہر ہوتی ہے۔(فتح الباری:2/226) واضح رہے کہ حضرت حسن بصری کے پیش کردہ قول کے حسب ذیل دو حصے ہیں:٭پہلے قول کو ابن منذر نے اپنی تالیف"الکبیر" میں موصولا بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:"جو آدمی امام کے ساتھ جمعے کی نماز پڑھ رہاہو،رش کی وجہ سے سجدہ نہ کرسکے تو جب لوگ نماز سے فارغ ہوجائیں،اسے چاہیے کہ وہ پہلی رکعت کے لیے دوسجدے کرے پھر کھڑا ہوجائے اور ایک رکعت دوسجدوں سمیت دوبارہ پڑھے۔"(فتح الباری:2/226)اس اثر کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ امام کی اقتدا اور پیروی انتہائی ضروری ہے حتی کہ اگر کسی مجبوری کی وجہ سے دوران نماز میں کسی رکعت کے ارکان کو امام کی اقتدا میں ادا نہ کرسکا تو اسے امام حسن بصری کے ہاں وہ رکعت دوبارہ پڑھنی ہوگی۔ والله اعلم ٭ دوسرا قول مصنف ابن ابی شیبہ(2/415) میں بایں الفاظ ذکر ہوا ہے:وہ آدمی جو اپنی نماز کے آغاز میں سجدہ کرنا بھول گیا پھر آخری رکعت میں یاد آیا،اس رکعت میں تین سجدے کرنے ہوں گے۔ اگر سلام پھیرنے سے پہلے یاد آیا تو ایک سجدہ کرے گا اور اگر سلام پھیرنے کے بعد یاد آیا تو پوری نماز اسے دوبارہ ادا کرنی ہوگی۔(فتح الباری:2/226)اس قول کی عنوان سے کوئی مطابقت نہیں اور اسے تبعا ذکر کردیا گیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی لیا جاسکتا کہ ایک شخص امام کی اقتدا کررہا تھا اور بحالت قیام اسے نیند آگئی،جب وہ بیدار ہواتو امام ایک سجدہ کرچکا تھا،ایسی صورت میں مقتدی سجدہ کر کے امام کے ساتھ شامل ہوجائے،چونکہ سجدہ رکن نماز ہے اور اس کی ادائیگی ضروری ہے۔اس صورت میں مسئلہ امامت سے بھی تعلق پیدا ہوجائے گا۔
اور رسول کریم ﷺ نے اپنے مرض وفات میں لوگوں کو بیٹھ کر نماز پڑھائی ( لوگ کھڑے ہوئے تھے ) اور عبداللہ بن مسعود ؓ کا قول ہے کہ جب کوئی امام سے پہلے سر اٹھا لے ( رکوع میں سجدے میں ) تو پھر وہ رکوع یا سجدے میں چلا جائے اور اتنی دیر ٹھہرے جتنی دیر سر اٹھائے رہا تھا پھر امام کی پیروی کرے۔ اور امام حسن بصری نے کہا کہ اگر کوئی شخص امام کے ساتھ دو رکعات پڑھے لیکن سجدہ نہ کر سکے، تو وہ آخری رکعت کے لیے دو سجدے کرے۔ پھر پہلی رکعت سجدہ سمیت دہرائے اور جو شخص سجدہ کئے بغیر بھول کر کھڑا ہو گیا تو وہ سجدے میں چلا جائے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: آپ مجھے رسول اللہ ﷺ کے مرض وفات کے متعلق کچھ بتانا پسند فرمائیں گی؟ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: کیوں نہیں، سنیے جب نبی ﷺ بیمار تھے تو آپ نے دریافت فرمایا: ’’لوگ نماز پڑھ چکے ہیں؟‘‘ ہم نے عرض کیا: نہیں، یا رسول اللہ! بلکہ وہ آپ کے منتظر ہیں۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: ’’میرے لیے ایک لگن میں پانی بھر دو۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: ہم نے ایسا ہی کیا، چنانچہ آپ نے غسل فرمایا: پھر اٹھنے لگے تو بےہوش ہو گئے۔ جب ہوش آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا لوگ نماز پڑھ چکے ہیں؟‘‘ ہم نے عرض کیا: نہیں، یا رسول اللہ! وہ تو آپ کے منتظر ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’میرے لیے ٹب میں پانی رکھ دو۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ آپ بیٹھ گئے اور غسل فرمایا۔ پھر جب آپ نے کھڑے ہونے کا ارادہ کیا تو بےہوش ہو گئے۔ اس کے بعد ہوش آیا تو آپ نے فرمایا:’’کیا لوگ نماز پڑھ چکے ہیں؟‘‘ ہم نے کہا: نہیں، یا رسول اللہ! وہ آپ کے منتظر ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’میرے لیے ٹب میں پانی رکھ دو۔‘‘ (ہم نے پانی رکھ دیا) تو آپ بیٹھ گئے اور غسل فرمایا۔ پھر جب آپ اٹھنے لگے تو بےہوش ہو گئے۔ بعد ازاں ہوش آیا تو آپ نے پوچھا: ’’کیا لوگ نماز پڑھ چکے ہیں؟‘‘ ہم نے کہا: نہیں، یا رسول اللہ! وہ آپ کے منتظر ہیں۔ لوگ عشاء کی نماز کے لیے مسجد میں بیٹھے رسول اللہ ﷺ کا انتظار کر رہے تھے۔ انجام کار نبی ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کے پاس ایک آدمی بھیجا اور حکم دیا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ آپ ﷺ کا فرستادہ ان کے پاس آیا اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ آپ کو حکم دے رہے ہیں کہ آپ لوگوں کو نماز پڑھائں۔ حضرت ابوبکر ؓ چونکہ انتہائی نرم دل انسان تھے، اس لیے انہوں نے حضرت عمر ؓ سے کہا: اے عمر! تم لوگوں کو نماز پڑھا دو۔ حضرت عمر ؓ نے ان سے کہا: آپ اس منصب کے زیادہ حق دار ہیں، چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ نے ان دنوں لوگوں کو نمازیں پڑھائیں۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے اپنے مرض میں کچھ افاقہ محسوس فرمایا تو آپ دو آدمیوں کے درمیان سہارا لے کر نماز ظہر کے لیے برآمد ہوئے۔ ان میں سے ایک حضرت عباس ؓ تھے۔ اس وقت حضرت ابوبکر ؓ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے۔ جب آپ کو حضرت ابوبکر ؓ نے دیکھا تو پیچھے ہٹنے لگے مگر نبی ﷺ نے اشارہ فرمایا کہ پیچھے نہ ہٹیں۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’مجھے ان کے پہلو میں بٹھا دو۔‘‘ چنانچہ ان دونوں نے آپ کو ابوبکر ؓ کے پہلو میں بٹھا دیا۔ اس وقت حضرت ابوبکر ؓ تو کھڑے ہو کر نبی ﷺ کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے جبکہ لوگ حضرت ابوبکر ؓ کی اقتدا میں نماز ادا کر رہے تھے اور نبی ﷺ بیٹھے ہوئے تھے۔ عبیداللہ نے کہا: پھر میں عبداللہ بن عباس ؓ کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ میں وہ حدیث تمہارے گوش گزار کروں جو مجھ سے حضرت عائشہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے مرض وفات کے متعلق بیان کی ہے؟ انہوں نے فرمایا: پیش کرو۔ میں نے ان کے سامنے حضرت عائشہ ؓ کی بیان کردہ حدیث پیش کی تو حضرت ابن عباس ؓ نے اس میں سے کسی بات کا انکار نہ کیا صرف اتنا کہا کہ حضرت عائشہ ؓ نے تمہیں اس شخص کا نام بھی بتایا جو حضرت عباس ؓ کے ہمراہ تھا؟ میں نے کہا: نہیں۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا: وہ حضرت علی ؓ تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ حدیث اس اجمال کی تفصیل ہے جسے امام بخاری ؒ نے ترجمۃ الباب کے تحت پہلے ذکر کیا ہے۔ اس حدیث میں ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ رسول اللہ ﷺ کی پیروی میں نماز پڑھنے لگے۔یہی ٹکڑا امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کے مطابق ہے، یعنی امام اس لیے مقرر کیا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ (عمدة القاري:300/4) (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام راتب جب بیمار ہوجائے اور جماعت نہ کراسکتا ہوتو اسے چاہیے کہ کسی کو اپنا نائب مقرر کردے، بیٹھ کر نماز پڑھانے سے یہ بہتر ہے, کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کو نماز پڑھانے کے لیے اپنا نائب مقرر فرمایا اور انھیں بیٹھ کر نماز نہیں پڑھائی۔ رسول اللہ ﷺ نے بیٹھ کر صرف ایک دفعہ مقتدی صحابہ کو نماز پڑھائی تھی۔ (3) اس سے یہ بھی معلوم کہ معذور امام بیٹھ کر نماز پڑھا سکتا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا بیٹھ کر امامت کے فرائض سر انجام دینا آپ کا خاصہ ہے، کیونکہ آپ نے فرمایا کہ میرے بعد کوئی آدمی بیٹھ کر نماز نہ پڑھائے۔ یہ موقف صحیح نہیں کیونکہ پیش کردہ حدیث مرسل ہے جو ائمہ حدیث کے نزدیک قابل حجت نہیں ہوتی۔ (فتح الباري:227/2)
ترجمۃ الباب:
نبیﷺنے مرض وفات میں لوگوں کو بیٹھ کر نماز پڑھائی (جبکہ لوگ کھڑے ہوئے تھے) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: جو شخص امام سے پہلے (رکوع یا سجدے سے) سر اٹھا لے، وہ دوبارہ رکوع یا سجدے میں چلا جائے اور اتنی دیر ٹھہرا رہے جتنی دیر اس نے سر اٹھائے رکھا تھا، پھر امام کی پیروی کرے۔ امام حسن بصری نے فرمایا: جو شخص امام کے ساتھ دو رکعت ادا کرے لیکن (بھیڑ کی وجہ سے) سجدہ نہ کر سکے، وہ دوسری رکعت کے لیے دو سجدے کرے، پھر پہلی رکعت سجدوں سمیت دوبارہ پڑھے۔ اور جو شخص بھول کر سجدہ کیے بغیر کھڑا ہو گیا، وہ سجدے میں چلا جائے۔
وضاحت: اس سے مقصود امامت کا تقاضا بیان کرنا ہے کہ مقتدی تمام احوال و اعمال میں امام کی اقتدا کرے، نہ تو امام کے ساتھ ساتھ چلے اور نہ امام سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے اور نہ اس کی مخالفت ہی کا ارتکاب کرے، البتہ اسی مخالفت کر سکتا ہے جس کے متعلق کوئی شرعی دلیل ہو، مثلا: امام کسی مجبوری کی بنا پر اگر بیٹھ کر جماعت کراتا ہے تو مقتدی حضرات اس کی مخالفت کرتے ہوئے کھڑے ہو کر نماز پڑھیں گے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں زائدہ بن قدامہ نے موسیٰ بن ابی عائشہ سے خبر دی، انہوں نے عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے، انہوں نے کہا کہ میں حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا، کاش! رسول اللہ ﷺ کی بیماری کی حالت آپ ہم سے بیان کرتیں، ( تو اچھا ہوتا ) انھوں نے فرمایا کہ ہاں ضرور سن لو۔ آپ کا مرض بڑھ گیا۔ تو آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ ہم نے عرض کی جی نہیں یا رسول اللہ! لوگ آپ کا انتظام کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میرے لیے ایک لگن میں پانی رکھ دو۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ ہم نے پانی رکھ دیا اور آپ ﷺ نے بیٹھ کر غسل کیا۔ پھر آپ اٹھنے لگے، لیکن آپ بے ہوش ہو گئے۔ جب ہوش ہوا تو پھر آپ نے پوچھا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے۔ ہم نے عرض کی نہیں حضور! لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ نے ( پھر ) فرمایا کہ لگن میں میرے لیے پانی رکھ دو۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ہم نے پھر پانی رکھ دیا اور آپ نے غسل فرمایا۔ پھر اٹھنے کی کوشش کی لیکن ( دوبارہ ) پھر آپ بے ہوش ہو گئے۔ جب ہوش ہوا تو آپ نے پھر یہی فرمایا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے۔ ہم نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ! لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ نے پھر فرمایا کہ لگن میں پانی لاؤ اور آپ نے بیٹھ کر غسل کیا۔ پھر اٹھنے کی کوشش کی، لیکن پھر آپ بے ہوش ہو گئے۔ پھر جب ہوش ہوا تو آپ نے پوچھا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہم نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ لوگ مسجد میں عشاء کی نماز کے لیے بیٹھے ہوئے نبی کریم ﷺ کا انتظار کر رہے تھے۔ آخر آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آدمی بھیجا اور حکم فرمایا کہ وہ نماز پڑھا دیں۔ بھیجے ہوئے شخص نے آ کر کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے آپ کو نماز پڑھانے کے لیے حکم فرمایا ہے۔ ابوبکر ؓ بڑے نرم دل انسان تھے۔ انھوں نے حضرت عمر ؓ سے کہا کہ تم نماز پڑھاؤ، لیکن حضرت عمر ؓ نے جواب دیا کہ آپ اس کے زیادہ حق دار ہیں۔ آخر ( بیماری ) کے دنوں میں حضرت ابوبکر ؓ نماز پڑھاتے رہے۔ پھر جب نبی کریم ﷺ کو مزاج کچھ ہلکا معلوم ہوا تو دو مردوں کا سہارا لے کر جن میں ایک حضرت عباس ؓ تھے ظہر کی نماز کے لیے گھر سے باہر تشریف لائے اور ابوبکر ؓ نماز پڑھا رہے تھے، جب انھوں نے آنحضور ﷺ کو دیکھا تو پیچھے ہٹنا چاہا، لیکن نبی ﷺ نے اشارے سے انھیں روکا کہ پیچھے نہ ہٹو! پھر آپ نے ان دونوں مردوں سے فرمایا کہ مجھے ابوبکر کے بازو میں بٹھا دو۔ چنانچہ دونوں نے آپ کو ابوبکر ؓ کے بازو میں بٹھا دیا۔ راوی نے کہا کہ پھر ابوبکر ؓ نماز میں نبی ﷺ کی پیروی کر رہے تھے اور لوگ ابوبکر ؓ کی نماز کی پیروی کر رہے تھے۔ نبی کریم ﷺ بیٹھے بیٹھے نماز پڑھ رہے تھے۔ عبید اللہ نے کہا کہ پھر میں عبداللہ بن عباس ؓ کی خدمت میں گیا اور ان سے عرض کی کہ حضرت عائشہ ؓ نے آنحضرت ﷺ کی بیماری کے بارے میں جو حدیث بیان کی ہے کیا میں آپ کو سناؤں؟ انھوں نے فرمایا کہ ضرور سناؤ۔ میں نے یہ حدیث سنا دی۔ انھوں نے کسی بات کا انکار نہیں کیا۔ صرف اتنا کہا کہ عائشہ ؓ نے ان صاحب کا نام بھی تم کو بتا دیا جو حضرت عباس ؓ کے ساتھ تھے۔ میں نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا وہ حضرت علی ؓ تھے۔
حدیث حاشیہ:
امام شافعی ؒ نے کہا کہ مرض موت میں آپ نے لوگوں کو یہی نماز پڑھائی وہ بھی بیٹھ کر بعض نے گمان کیا کہ یہ فجر کی نماز تھی، کیوں کہ دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے وہیں سے قرات شرو ع کی جہاں تک ابوبکر پہنچے تھے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیوں کہ ظہر میں بھی آیت کا سننا ممکن ہے۔ جیسے ایک حدیث میں ہے کہ آپ سری نماز میں بھی اس طرح سے قرات کرتے تھے کہ ایک آدھ آیت ہم کو سنا دیتے یعنی پڑھتے پڑھتے ایک آدھ آیت ذرا ہلکی آواز سے پڑھ دیتے کہ مقتدی اس کو سن لیتے۔ ( مولانا وحید الزماں مرحوم ) ترجمۃ الباب کے بارے میں حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: هذہ الترجمة قطعة من الحدیث الآتي في الباب و المراد بها أن الائتمام یقتضي متابعة المأموم لإمامه الخ ( فتح ) یعنی یہ باب حدیث ہی کا ایک ٹکڑا ہے جو آگے مذکور ہے۔ مرا دیہ ہے کہ اقتدا کرنے کا اقتضاءہی یہ ہے کہ مقتدی اپنے امام کی نماز میں پیروی کرے اس پر سبقت نہ کرے۔ مگر دلیل شرعی سے کچھ ثابت ہو تو وہ امر دیگر ہے۔ جیسا کہ یہاں مذکور ہے کہ آنحضرت ﷺ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ubaid-Ullah Ibn 'Abdullah bin 'Utba (RA): I went to 'Aisha (RA) and asked her to describe to me the illness of Allah's Apostle. 'Aisha (RA) said, "Yes. The Prophet (ﷺ) became seriously ill and asked whether the people had prayed. We replied, 'No. O Allah's Apostle (ﷺ) ! They are waiting for you.' He added, 'Put water for me in a trough." 'Aisha (RA) added, "We did so. He took a bath and tried to get up but fainted. When he recovered, he again asked whether the people had prayed. We said, 'No, they are waiting for you. O Allah's Apostle,' He again said, 'Put water in a trough for me.' He sat down and took a bath and tried to get up but fainted again. Then he recovered and said, 'Have the people prayed?' We replied, 'No, they are waiting for you. O Allah's Apostle.' He said, 'Put water for me in the trough.' Then he sat down and washed himself and tried to get up but he fainted. When he recovered, he asked, 'Have the people prayed?' We said, 'No, they are waiting for you. O Allah's Apostle (ﷺ) ! The people were in the mosque waiting for the Prophet (ﷺ) for the 'Isha prayer. The Prophet (ﷺ) sent for Abu Bakr (RA) to lead the people in the prayer. The messenger went to Abu Bakr (RA) and said, 'Allah's Apostle (ﷺ) orders you to lead the people in the prayer.' Abu Bakr (RA) was a soft-hearted man, so he asked 'Umar to lead the prayer but 'Umar replied, 'You are more rightful.' So Abu Bakr (RA) led the prayer in those days. When the Prophet (ﷺ) felt a bit better, he came out for the Zuhr prayer with the help of two persons one of whom was Al-'Abbas. while Abu Bakr (RA) was leading the people in the prayer. When Abu Bakr (RA) saw him he wanted to retreat but the Prophet (ﷺ) beckoned him not to do so and asked them to make him sit beside Abu Bakr (RA) and they did so. Abu Bakr (RA) was following the Prophet (ﷺ) (in the prayer) and the people were following Abu Bakr. The Prophet (ﷺ) (prayed) sitting." 'Ubaid-Ullah (RA) added "I went to 'Abdullah bin 'Abbas (RA) and asked him, Shall I tell you what Aisha (RA) as told me about the fatal illness of the Prophet (ﷺ)?' Ibn 'Abbas (RA) said, 'Go ahead. I told him her narration and he did not deny anything of it but asked whether 'Aisha (RA) told me the name of the second person (who helped the Prophet) along with Al-Abbas. I said. 'No.' He said, 'He was 'Ali (Ibn Abi Talib) (RA).