تشریح:
(1) جمہور کے نزدیک اگر نماز پڑھنے کے لیے صرف دو آدمی ہوں تو مقتدی کو چاہیے کہ وہ امام کی دائیں جانب کھڑا ہو، کسی صورت میں اس کے آگے یا پیچھے نہ ہو، لیکن امام شافعی ؒ کے نزدیک ایسے حالات میں مقتدی کو تھوڑا سا پیچھے ہٹ کر کھڑا ہونا چاہیے۔ امام بخاری ؒ نے اس عنوان اور حدیث کے ذریعے سے شوافع کے موقف کی تردید فرمائی ہے۔ اس مسئلے میں تمام علماء کا اتفاق ہے کہ اگر امام کے ساتھ ایک ہی مقتدی ہو تو اسے امام کے دائیں جانب کھڑا ہونا چاہیے، لیکن امام نخعی ؒ نے اس موقف سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب امام کے ہمراہ ایک ہی مقتدی ہو تو اسے امام کے پیچھے کھڑا ہونا چاہیے، اس کے بعد اگر کسی دوسرے نمازی کے آنے سے پہلے پہلے امام رکوع کردے تو وہ فورا امام کے برابر دائیں جانب چلا جائے لیکن ان کا یہ موقف صریح نص کے خلاف ہے۔ (فتح الباري:247/2)
(2) حضرت ابن عباس ؓ کو رسول اللہ ﷺ نے نماز ہی میں اپنی بائیں جانب سے دائیں جانب کرلیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر نماز میں کوئی کراہت کا معاملہ آجائے تو اسے دوران نماز ہی میں رفع کردینا چاہیے۔