تشریح:
(1) امام احمد بن حنبل ؒ کا موقف یہ ہے کہ مقتدی اگر امام کی بائیں جانب کھڑا ہوجائے تو اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے جبکہ جمہور کہتے ہیں کہ اس طرح کھڑا ہونے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی۔ امام بخاری ؒ نے جمہور کی تائید کرتے ہوئے اس حدیث کو پیش کیا اور ثابت کیا ہے کہ مقتدی اگر امام کی بائیں جانب کھڑا ہوجاتا ہے تو اس سے نماز میں کسی قسم کا فساد نہیں آتا۔ جیسا کہ حدیث میں واضح طور پر موجود ہے۔ امام سعید بن مسیب ؒ فرماتے ہیں کہ جب مقتدی ایک ہو تو اسے امام کی بائیں جانب کھڑا ہونا چاہیے، لیکن حدیث سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔
(2) امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں عمرو بن حارث کے حوالے سے علو سند کو بیان کیا ہے، کیونکہ ان کی سند میں کریب تک صرف بکیر بن عبداللہ کا ایک واسطہ ہے، جبکہ حدیث کی بیان کردہ سند میں عمرو بن حارث کے بعد کریب تک حضرت عبدربہ بن سعید اور مخرمہ بن سلیمان کے دو واسطے ہیں۔ (فتح الباري:248/2)