باب: امام اس لیے مقرر کیا جاتا ہے کہ لوگ اس کی پیروی کریں۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: The Imam is appointed to be followed)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور رسول کریم ﷺ نے اپنے مرض وفات میں لوگوں کو بیٹھ کر نماز پڑھائی ( لوگ کھڑے ہوئے تھے ) اور عبداللہ بن مسعود ؓ کا قول ہے کہ جب کوئی امام سے پہلے سر اٹھا لے ( رکوع میں سجدے میں ) تو پھر وہ رکوع یا سجدے میں چلا جائے اور اتنی دیر ٹھہرے جتنی دیر سر اٹھائے رہا تھا پھر امام کی پیروی کرے۔ اور امام حسن بصری نے کہا کہ اگر کوئی شخص امام کے ساتھ دو رکعات پڑھے لیکن سجدہ نہ کر سکے، تو وہ آخری رکعت کے لیے دو سجدے کرے۔ پھر پہلی رکعت سجدہ سمیت دہرائے اور جو شخص سجدہ کئے بغیر بھول کر کھڑا ہو گیا تو وہ سجدے میں چلا جائے۔
698.
ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے گھر میں نماز پڑھی۔ چونکہ آپ بیمار تھے، اس لیے آپ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے جبکہ لوگ دوران نماز میں آپ کے پیچھے کھڑے تھے۔ آپ نے انہیں بیٹھ جانے کا اشارہ فرمایا۔ پھر جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ’’امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ جب وہ رکوع میں چلا جائے تو تم بھی رکوع میں چلے جاؤ اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھا لو۔ اور جب وہ سمع الله لمن حمده کہے تو تم ربنا ولك الحمد کہو۔ اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔‘‘
تشریح:
یہ مرض وفات سے پہلے کا واقعہ ہے جب رسول اللہ ﷺ گھوڑے سے گر کر زخمی ہوگئے تھے۔ اس روایت میں حضرت عائشہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی بیماری کی نوعیت کو مبہم رکھا ہے جبکہ حضرت انس اور حضرت جابر ؓ کی روایات میں اس کی صراحت ہے کہ گھوڑے سے گرنے کی وجہ سے آپ کا دایاں پہلو متاثر ہوا تھا، اس کے علاوہ آپ کے پاؤں کو بھی موچ آگئی تھی، اس بنا پر رسول الله ﷺ نے بالا خانے میں قیام فرمایا اور تیماداری کرنے والے صحابہ کو نماز پڑھائی۔ ابو داود میں ہے کہ اس وقت دو مرتبہ آپ کے جانثار صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم آپ کی تیماداری کے لیے حاضر خدمت ہوئے اور دونوں مرتبہ آپ نے انھیں بیٹھ کر نماز پڑھائی۔ پہلی دفعہ نفلی نماز پڑھائی تھی، چنانچہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے تھے جبکہ آپ بیٹھے ہوئے تھے لیکن آپ نے انھیں بیٹھنے کا حکم نہیں دیا اور دوسری مرتبہ جو نماز پڑھائی وہ فرض نماز تھی اور آپ نے دوران نماز میں کھڑے ہوئے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو بیٹھنے کا اشارہ فرمایا۔ (فتح الباري:233/2) امام ابن حبان کی صراحت کے مطابق گھوڑے سے گرنے کا واقعہ ہجرت کے پانچویں سال پیش آیا۔ (فتح الباري:231/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
679
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
688
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
688
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
688
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
امام کے ساتھ نماز پڑھتے وقت چار صورتیں ممکن ہیں:٭متابعت: مقتدی نماز کے اعمال وافعال کو امام کی پیروی میں ادا کرے۔٭موافقت:مقتدی نماز کے اعمال وافعال کو امام کے ساتھ ساتھ ادا کرے۔٭مسابقت: مقتدی نماز کے اعمال وافعال کو امام سے پہلے ادا کرے۔٭مخالفت: مقتدی نماز کے اعمال وافعال کو امام کے بعد ادا کرے۔شریعت نے امام کی متابعت کا حکم دیا ہے۔مسابقت اور مخالفت دونوں منع ہیں۔موافقت آمین اور سمع الله لمن حمده کہنے میں ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے انھی صورتوں کو بیان فرمایا ہے۔مذکورہ عنوا ن حدیث:688 کا ایک ٹکڑا ہے۔اس سے مقصود امامت کا تقاضا بیان کرنا ہے کہ مقتدی تمام احوال واعمال میں امام کی اقتدا کرے،نہ تو امام کے ساتھ ساتھ چلے اور نہ امام سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے اور نہ اس کی مخالفت ہی کا ارتکاب کرے،البتہ ایسی مخالفت کرسکتا ہے جس کے متعلق کوئی شرعی دلیل ہو، مثلا: امام کسی مجبوری کی بنا پر اگر بیٹھ کر جماعت کراتا ہے تو مقتدی حضرات اس کی مخالفت کرتے ہوئے کھڑے ہوکر نماز پڑھیں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع حدیث کا ٹکڑا پیش کرکے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مقتدی ان افعال میں امام کی مخالفت کرسکتے ہیں جس کے متعلق شرعی دلیل موجود ہے۔(فتح الباری:2/225)حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول مصنف ابن ابی شیبہ (2/454) میں بایں الفاظ موجود ہے: لوگو! رکوع وسجود میں اپنے اماموں سے جلدی نہ کیا کرو۔اگر تم میں سے کوئی اپنا سر اٹھالے جبکہ امام ابھی سجدے میں ہو تو وہ دوبارہ سجدے میں چلا جائے اور جتنی دیر امام سے مسابقت کی تھی اتنی دیر تک سجدے میں پڑا رہے۔مصنف عبدالرزاق(2/375) میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی ایسا منقول ہے۔(فتح الباری:2/226) شارح بخاری امام زین بن منیر فرماتے ہیں کہ جب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ہاں امام سے پہلے سر اٹھانے والے شخص کو اسی قدر حصہ دوبارہ ادا کرنے کا حکم ہے جس میں وہ امام کی اقتدا سے نکل گیا تھا،اس لیے بہتر ہے کہ وہ مکمل طور پر رکوع وسجود میں امام کی اقتدا کرے۔اسی سے اس اثر عنوان کے ساتھ مطابقت ظاہر ہوتی ہے۔(فتح الباری:2/226) واضح رہے کہ حضرت حسن بصری کے پیش کردہ قول کے حسب ذیل دو حصے ہیں:٭پہلے قول کو ابن منذر نے اپنی تالیف"الکبیر" میں موصولا بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:"جو آدمی امام کے ساتھ جمعے کی نماز پڑھ رہاہو،رش کی وجہ سے سجدہ نہ کرسکے تو جب لوگ نماز سے فارغ ہوجائیں،اسے چاہیے کہ وہ پہلی رکعت کے لیے دوسجدے کرے پھر کھڑا ہوجائے اور ایک رکعت دوسجدوں سمیت دوبارہ پڑھے۔"(فتح الباری:2/226)اس اثر کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ امام کی اقتدا اور پیروی انتہائی ضروری ہے حتی کہ اگر کسی مجبوری کی وجہ سے دوران نماز میں کسی رکعت کے ارکان کو امام کی اقتدا میں ادا نہ کرسکا تو اسے امام حسن بصری کے ہاں وہ رکعت دوبارہ پڑھنی ہوگی۔ والله اعلم ٭ دوسرا قول مصنف ابن ابی شیبہ(2/415) میں بایں الفاظ ذکر ہوا ہے:وہ آدمی جو اپنی نماز کے آغاز میں سجدہ کرنا بھول گیا پھر آخری رکعت میں یاد آیا،اس رکعت میں تین سجدے کرنے ہوں گے۔ اگر سلام پھیرنے سے پہلے یاد آیا تو ایک سجدہ کرے گا اور اگر سلام پھیرنے کے بعد یاد آیا تو پوری نماز اسے دوبارہ ادا کرنی ہوگی۔(فتح الباری:2/226)اس قول کی عنوان سے کوئی مطابقت نہیں اور اسے تبعا ذکر کردیا گیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی لیا جاسکتا کہ ایک شخص امام کی اقتدا کررہا تھا اور بحالت قیام اسے نیند آگئی،جب وہ بیدار ہواتو امام ایک سجدہ کرچکا تھا،ایسی صورت میں مقتدی سجدہ کر کے امام کے ساتھ شامل ہوجائے،چونکہ سجدہ رکن نماز ہے اور اس کی ادائیگی ضروری ہے۔اس صورت میں مسئلہ امامت سے بھی تعلق پیدا ہوجائے گا۔
اور رسول کریم ﷺ نے اپنے مرض وفات میں لوگوں کو بیٹھ کر نماز پڑھائی ( لوگ کھڑے ہوئے تھے ) اور عبداللہ بن مسعود ؓ کا قول ہے کہ جب کوئی امام سے پہلے سر اٹھا لے ( رکوع میں سجدے میں ) تو پھر وہ رکوع یا سجدے میں چلا جائے اور اتنی دیر ٹھہرے جتنی دیر سر اٹھائے رہا تھا پھر امام کی پیروی کرے۔ اور امام حسن بصری نے کہا کہ اگر کوئی شخص امام کے ساتھ دو رکعات پڑھے لیکن سجدہ نہ کر سکے، تو وہ آخری رکعت کے لیے دو سجدے کرے۔ پھر پہلی رکعت سجدہ سمیت دہرائے اور جو شخص سجدہ کئے بغیر بھول کر کھڑا ہو گیا تو وہ سجدے میں چلا جائے۔
حدیث ترجمہ:
ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے گھر میں نماز پڑھی۔ چونکہ آپ بیمار تھے، اس لیے آپ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے جبکہ لوگ دوران نماز میں آپ کے پیچھے کھڑے تھے۔ آپ نے انہیں بیٹھ جانے کا اشارہ فرمایا۔ پھر جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ’’امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ جب وہ رکوع میں چلا جائے تو تم بھی رکوع میں چلے جاؤ اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھا لو۔ اور جب وہ سمع الله لمن حمده کہے تو تم ربنا ولك الحمد کہو۔ اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
یہ مرض وفات سے پہلے کا واقعہ ہے جب رسول اللہ ﷺ گھوڑے سے گر کر زخمی ہوگئے تھے۔ اس روایت میں حضرت عائشہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی بیماری کی نوعیت کو مبہم رکھا ہے جبکہ حضرت انس اور حضرت جابر ؓ کی روایات میں اس کی صراحت ہے کہ گھوڑے سے گرنے کی وجہ سے آپ کا دایاں پہلو متاثر ہوا تھا، اس کے علاوہ آپ کے پاؤں کو بھی موچ آگئی تھی، اس بنا پر رسول الله ﷺ نے بالا خانے میں قیام فرمایا اور تیماداری کرنے والے صحابہ کو نماز پڑھائی۔ ابو داود میں ہے کہ اس وقت دو مرتبہ آپ کے جانثار صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم آپ کی تیماداری کے لیے حاضر خدمت ہوئے اور دونوں مرتبہ آپ نے انھیں بیٹھ کر نماز پڑھائی۔ پہلی دفعہ نفلی نماز پڑھائی تھی، چنانچہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے تھے جبکہ آپ بیٹھے ہوئے تھے لیکن آپ نے انھیں بیٹھنے کا حکم نہیں دیا اور دوسری مرتبہ جو نماز پڑھائی وہ فرض نماز تھی اور آپ نے دوران نماز میں کھڑے ہوئے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو بیٹھنے کا اشارہ فرمایا۔ (فتح الباري:233/2) امام ابن حبان کی صراحت کے مطابق گھوڑے سے گرنے کا واقعہ ہجرت کے پانچویں سال پیش آیا۔ (فتح الباري:231/2)
ترجمۃ الباب:
نبیﷺنے مرض وفات میں لوگوں کو بیٹھ کر نماز پڑھائی (جبکہ لوگ کھڑے ہوئے تھے) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: جو شخص امام سے پہلے (رکوع یا سجدے سے) سر اٹھا لے، وہ دوبارہ رکوع یا سجدے میں چلا جائے اور اتنی دیر ٹھہرا رہے جتنی دیر اس نے سر اٹھائے رکھا تھا، پھر امام کی پیروی کرے۔ امام حسن بصری نے فرمایا: جو شخص امام کے ساتھ دو رکعت ادا کرے لیکن (بھیڑ کی وجہ سے) سجدہ نہ کر سکے، وہ دوسری رکعت کے لیے دو سجدے کرے، پھر پہلی رکعت سجدوں سمیت دوبارہ پڑھے۔ اور جو شخص بھول کر سجدہ کیے بغیر کھڑا ہو گیا، وہ سجدے میں چلا جائے۔
وضاحت: اس سے مقصود امامت کا تقاضا بیان کرنا ہے کہ مقتدی تمام احوال و اعمال میں امام کی اقتدا کرے، نہ تو امام کے ساتھ ساتھ چلے اور نہ امام سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے اور نہ اس کی مخالفت ہی کا ارتکاب کرے، البتہ اسی مخالفت کر سکتا ہے جس کے متعلق کوئی شرعی دلیل ہو، مثلا: امام کسی مجبوری کی بنا پر اگر بیٹھ کر جماعت کراتا ہے تو مقتدی حضرات اس کی مخالفت کرتے ہوئے کھڑے ہو کر نماز پڑھیں گے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا کہا کہ ہم سے امام مالک ؓ علیہ نے ہشام بن عروہ سے بیان کیا۔ انہوں نے اپنے باپ عروہ سے انہوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ سے کہ آپ نے بتلایا کہ رسول کریم ﷺ نے ایک مرتبہ بیماری کی حالت میں میرے ہی گھر میں نماز پڑھی۔ آپ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر پڑھ رہے تھے۔ آپ نے ان کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد فرمایا کہ امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ اس لیے جب وہ رکوع میں جائے تو تم بھی رکوع میں جاؤ اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا ولك الحمد کہو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔
حدیث حاشیہ:
قسطلانی ؒ نے کہا کہ اس حدیث سے حضرت امام ابوحنفیہ ؒ نے دلیل لی کہ امام فقط سمع اللہ لمن حمدہ کہے اور مقتدی ربنا لك الحمد یا ربنا و لك الحمد یا اللهم ربنا لك الحمد کہے اور امام شافعی ؒ اور ہمارے امام احمد بن حنبل ؒ کا یہ قول ہے کہ امام دونوں لفظ کہے اور اسی طرح مقتدی بھی دونوں لفظ کہے۔ ( مولانا وحید الزماں)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aishah (RA): The mother of the believers: Allah's Apostle (ﷺ) during his illness prayed at his house while sitting whereas some people prayed behind him standing. The Prophet (ﷺ) beckoned them to sit down. On completion of the prayer, he said, 'The Imam is to be followed: bow when he bows, raise up your heads (stand erect) when he raises his head and when he says, 'Sami a-l-lahu liman-hamida ' (Allah heard those who sent praises to Him) say then 'Rabbana wa laka-l-hamd' (O our Lord! All the praises are for you), and if he prays sitting then pray sitting."