تشریح:
1۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ حدیث مرض وفات میں بیان فرمائی، چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض وفات میں پردہ اٹھایا جبکہ آپ نے بیماری کی وجہ سے اپنا سر باندھ رکھا تھا اور لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اقتدا میں نماز ادا کر رہے تھے، آپ نےفرمایا: ’’لوگو! مبشرات نبوت سے اب صرف اچھے خواب باقی رہ گئے ہیں جنھیں ایک مسلمان دیکھتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 1074(479) اس کا قطعاً مطلب یہ نہیں کہ جسے اچھا خواب آئے اسے نبوت کا کچھ حصہ مل جاتا ہے کیونکہ اس حدیث میں خواب کے معاملے کو نبوت سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اگر کوئی شخص أشھد ان لا إلٰه إلا اللہ بآواز بلند کہتا ہے تو اسے مؤذن نہیں کہا جاتا، حالانکہ یہ کلمہ اذان کا جز ہے۔
2۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے مہلب کے حوالے سے لکھا ہے کہ اچھے خواب کو مبشرات سے تعبیر کرنا اغلبیت کی وجہ سے ہے کیونکہ کچھ خواب سچے ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ مومن کو اس لیے دکھاتا ہے کہ وہ مستقبل میں پیش آنے والے حادثے کے لیے خود کو تیار کر کے، یعنی مبشرات کے بجائے منذرات سے ہوتا ہے۔ (فتح الباري: 470/12)