تشریح:
1۔دراصل حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی مذکورہ حدیث ان کے دو خوابوں پر مشتمل ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں خواب میں دیکھا کہ میرے ہاتھ میں ایک موٹے ریشم کا ٹکڑا ہے۔ میں جنت کے جس مقام کا ارادہ کرتا ہوں وہ مجھے وہاں لے جاتا ہے۔ پھر میں نے ایک دوسرے خواب میں دیکھا کہ میرے پاس دو فرشتے آئے اور مجھے آگ کی طرف لے گئے انھیں ایک تیسرا فرشتہ ملا تو اس نے کہا: عبد اللہ! گھبرانے کی ضرورت نہیں پھر ان سے مخاطب ہوا کہ اسے چھوڑ دو۔ میں نے یہ خواب حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بیان کیا۔ انھوں نے اس کا ایک حصہ (جو آگ والا تھا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا: ’’عبد اللہ اچھا آدمی ہے اگر قیام اللیل کا اہتمام کیا کرے۔‘‘ (صحیح البخاري، التهجد، حدیث: 1156۔1157) اس کے بعد حضرت عبد اللہ رات کو بہت کم سوتے تھے۔ (صحیح البخاري التهجد، حدیث: 1122)
2۔ حافظ ابن حجر نے ایک روایت کی نشاندہی کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت سوتے تھے اور جس فرشتے نے خواب میں آپ کو تسلی دی تھی اس نے کہا کہ نماز سے سستی نہ کیا کرو۔ آپ اچھے آدمی ہیں صرف نماز تہجد کے اہتمام کی کمی ہے۔ (فتح الباری:12/505) بہر حال حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکورہ ارشاد گرامی اس خواب کا حصہ ہے جس میں انھیں آگ سے ڈرایا گیا تھا اور ایک فرشتے نے انھیں تسلی دی تھی کہ گھبرانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ آپ اس میں داخل نہیں ہوں گے۔ آپ نماز تہجد پڑھنے کا اہتمام کیا کریں۔ واللہ أعلم۔